’یہ جی ایس ٹی 1.5 ہے، سچے جی ایس ٹی 2.0 کا انتظار باقی‘- حکومت کے اعلان پر جے رام رمیش کا تبصرہ
جے رام رمیش نے جی ایس ٹی میں اصلاحات کو محدود قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سچا ’جی ایس ٹی 2.0‘ نہیں بلکہ ’جی ایس ٹی 1.5‘ ہے اور تاحال ریاستوں کا مالی تحفظ کا مطالبہ بھی پورا نہیں ہوا

نئی دہلی: کانگریس نے حکومت کی اعلان کردہ جی ایس ٹی اصلاحات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اب بھی سچا ’جی ایس ٹی 2.0‘ نہیں ہے بلکہ صرف ’جی ایس ٹی 1.5‘ ہے۔ پارٹی کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش نے جمعرات کو ایک بیان اور ’ایکس‘ پوسٹ کے ذریعے دعویٰ کیا کہ حکومت نے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے بجائے محض وقتی راحت دی ہے۔
جے رام رمیش نے کہا کہ جی ایس ٹی 2.0 کی جو شکل کانگریس چاہتی ہے، اس میں ٹیکس سلیب کی تعداد کم ہونی چاہیے، عام استعمال کی اشیاء پر شرح میں کمی ہونی چاہیے، ٹیکس چوری اور غلط درجہ بندی کے تنازعات ختم ہونے چاہئیں اور سب سے بڑھ کر مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز (ایم ایس ایم ای) پر تعمیل کا بوجھ ہلکا ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ اعلان سے یہ سب ممکن نہیں لگتا۔
خیال رہے کہ جی ایس ٹی کونسل نے کل یعنی بدھ کے روز اپنی میٹنگ میں سب کی رضامندی سے بڑے فیصلے کیے۔ ان میں عام استعمال کی اشیاء جیسے صابن، سائیکل، ٹی وی اور ہیلتھ و لائف انشورنس پالیسی پر ٹیکس میں کمی شامل ہے۔ ساتھ ہی پانچ فیصد اور 18 فیصد کے دو سطحی ڈھانچے کو منظوری دی گئی ہے لیکن رمیش نے اس پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ‘سچی اصلاح‘ نہیں بلکہ محض عبوری اقدام ہیں۔
کانگریس لیڈر نے دعویٰ کیا کہ مرکزی وزیر خزانہ نے مجبوری میں یہ قدم اٹھایا کیونکہ نجی کھپت کی رفتار کم ہو رہی ہے، سرمایہ کاری سست ہے اور مسلسل ٹیکس تنازعات ابھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’جی ایس ٹی 1.0 کا ڈیزائن شروع سے ہی خامیوں سے بھرا ہوا تھا۔ کانگریس نے 2017 میں ہی اس پر سوال اٹھایا تھا لیکن وزیر اعظم نے اپنا فیصلہ بدل کر جی ایس ٹی نافذ کر دیا۔ اسے ’بہتر اور سادہ ٹیکس‘ قرار دیا گیا تھا لیکن یہ ترقی کو روکنے والا ٹیکس ثابت ہوا۔‘‘
رمیش نے مزید نشاندہی کی کہ اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 15 اگست 2025 کے اپنے یوم آزادی خطاب میں جی ایس ٹی میں بڑے بدلاؤ کا عندیہ دے دیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جی ایس ٹی کونسل اب صرف رسمی ادارہ بن کر رہ گئی ہے؟ ان کے مطابق کل کی میٹنگ سے پہلے ہی وزیر اعظم نے فیصلے کا اعلان کر دیا، جس سے کونسل کی حیثیت مشکوک نظر آتی ہے۔
انہوں نے ریاستوں کے مطالبے کو بھی اجاگر کیا کہ جی ایس ٹی آمدنی کی تلافی کی مدت کو مزید پانچ سال بڑھایا جائے تاکہ ان کی مالی حالت پر بوجھ نہ پڑے۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ مطالبہ پہلے بھی تھا لیکن آج یہ اور زیادہ اہم ہو گیا ہے، کیونکہ ریاستوں کو اپنے وسائل بڑھانے میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔‘‘
جے رام رمیش نے کہا کہ اگرچہ حالیہ فیصلوں سے کچھ مصنوعات کے دام گھٹیں گے اور ممکن ہے کہ اس کا فائدہ صارفین کو ملے، لیکن اصل امتحان یہ ہوگا کہ کیا اس سے سرمایہ کاری کو تحریک ملے گی اور ایم ایس ایم ای پر دباؤ کم ہوگا۔ ان کے مطابق، ’’سچا جی ایس ٹی 2.0 ابھی بھی دور ہے اور اس کا انتظار باقی ہے۔‘‘