’پانچ خاندانوں کے پاس جی ڈی پی کے 18 فیصد کے برابر دولت‘، جے رام رمیش کا حکومت پر نشانہ
جے رام رمیش نے ہُرن انڈیا رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پانچ صنعتی خاندانوں کے پاس ملک کی جی ڈی پی کے 18 فیصد کے برابر دولت ہے، سب سے زیادہ 12.7 فیصد دولت اکیلے امبانی گروپ کے پاس ہے

نئی دہلی: کانگریس کے سینئر رہنما اور راجیہ سبھا رکن جے رام رمیش نے بدھ کو ایکس پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے مودی حکومت پر شدید تنقید کی اور دعویٰ کیا کہ ملک میں معاشی عدم مساوات خطرناک سطح پر پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں حکومت کے پریس انفارمیشن بیورو (پی آئی بی) نے ایک رپورٹ کے حوالے سے یہ گمراہ کن دعویٰ کیا کہ ہندوستان دنیا کا چوتھا سب سے زیادہ معاشی مساوات والا ملک ہے، حالانکہ زمینی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
جے رام رمیش کے مطابق، پی آئی بی نے ایک نامعلوم رپورٹ کا حوالہ دے کر اعداد و شمار کو توڑ مروڑ کر پیش کیا، جس کے بعد حکومت کے حامی میڈیا نے یہ بیانیہ پھیلانا شروع کر دیا کہ ملک میں زبردست معاشی مساوات قائم ہو گئی ہے۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور اس کے ’دربار‘ کو ہُرن انڈیا کی تازہ رپورٹ ضرور دیکھنی چاہیے، جو اصل صورتحال بیان کرتی ہے۔
ہُرن انڈیا کی تازہ رپورٹ کے مطابق:
- ملک کے صرف پانچ بڑے صنعتی گھرانوں کے پاس ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے تقریباً 18 فیصد کے برابر دولت ہے۔
- ان میں سے صرف اکیلا امبانی گروپ ہی جی ڈی پی کے 12.7 فیصد کے برابر دولت رکھتا ہے۔
- ہندوستانی معیشت کا موجودہ تخمینہ تقریباً 331 لاکھ کروڑ روپے ہے، جس میں سے 60 لاکھ کروڑ روپے کی دولت صرف ان پانچ خاندانوں کے پاس ہے۔
- یہ پانچوں خاندان اتنی دولت رکھتے ہیں جو دنیا کے کئی چھوٹے ممالک کی پوری معیشت سے بھی زیادہ ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اڈانی گروپ، ہُرن لسٹ میں سب سے اوپر کے صنعتی گھرانوں میں شامل ہے، جبکہ دیگر بڑے کاروباری خاندان بھی فہرست میں ہیں۔ کئی خاندان پہلی بار اس لسٹ میں شامل ہوئے ہیں۔
جے رام رمیش نے اپنے بیان میں کہا کہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ معاشی وسائل کا اتنا بڑا حصہ چند ہاتھوں میں سمٹ گیا ہے، کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ 11 برسوں سے لگاتار انہی چند صنعتکاروں کے مفادات کے لیے کام کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی خارجہ پالیسی، اقتصادی پالیسی اور صنعتی پالیسی سب انہی مخصوص سرمایہ دار دوستوں کے فائدے کے لیے ڈھالی گئی ہیں۔
ان کے مطابق، اس خطرناک معاشی عدم مساوات کی اصل قیمت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار، ملک کا نچلا اور متوسط طبقہ چکا رہا ہے۔ جے رام رمیش نے کہا کہ عام شہریوں کی جیبیں خالی ہیں، ان کی بچت ختم ہو چکی ہے، اور ملک کی بڑی آبادی کے پاس روزمرہ اخراجات کے لیے بھی وسائل نہیں بچے۔
انہوں نے انتباہ دیا کہ اگر یہ رجحان جاری رہا تو یہ معاشی عدم مساوات ایک بڑے سماجی و اقتصادی بحران میں تبدیل ہو جائے گی۔ ان کے بقول، حکومت کو فوری طور پر پالیسی سطح پر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے دولت کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو سکے اور روزگار کے مواقع بڑھائے جا سکیں۔
رپورٹ میں یہ بھی ذکر ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں دولت کی اس طرح کی ارتکاز کو معیشت کے لیے خطرہ تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ اس سے مارکیٹ میں طاقت کا توازن بگڑتا ہے اور جمہوری ادارے کمزور پڑتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق، جب دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جاتی ہے تو اس کا اثر پالیسی سازی پر بھی پڑتا ہے، جس سے عام شہریوں کے مسائل پس پشت چلے جاتے ہیں۔
جے رام رمیش نے آخر میں کہا کہ حکومت کو اعداد و شمار کے ساتھ کھیلنے کے بجائے سچائی کا سامنا کرنا چاہیے اور اس بڑھتی ہوئی خلیج کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب ہر طبقے کو اس میں حصہ داری کا موقع ملے، نہ کہ صرف چند امیر خاندانوں کو۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔