دہلی: رمضان المبارک سے قبل عوام کو ملی مفت میں کمر توڑ مہنگائی

گزشتہ برس کے مقابلے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 50 سے 60 فیصد تک کا اضافہ، مہنگائی ڈائن نے کھجوروں اور کھجلا، فینی کو بھی نہیں بخشا۔

رمضان المبارک سے قبل مہنگائی / تصویر محمد تسلیم
رمضان المبارک سے قبل مہنگائی / تصویر محمد تسلیم
user

محمد تسلیم

نئی دہلی: رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ رمضان کے آغاز سے قبل بازاروں میں رونقیں تو بحال ہو گئی ہیں لیکن آسمان چھوتی مہنگائی نے عوام کا جینا دشوار کر دیا ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے رواں سال اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں 50 سے 60 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجہ میں عام لوگوں کو گھر چلانے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ رسوئی گیس، دال، چینی، چاول، کھجور، تیل، گوشت، سبزیاں، آٹا، مصالحے، چائے کی پتی، سحری میں خصوصی طور پر کھائے جانے والا کھجلا، فینی، ٹوسٹ، بند وغیرہ کی قیمتیں بڑھنے سے دہلی کے تمام چھوٹے و بڑے دکاندار سخت پریشان ہیں۔ مُسلسل بڑھتی مہنگائی پر قابو پانے میں مرکزی و ریاستی دونوں حکومتیں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔

قومی آواز کے نمائندہ نے شمال مشرقی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقہ جعفرآباد اور سیلم پور مارکیٹ کا دورہ کیا اور مہنگائی کے تعلق سے دکانداروں سے بات کی۔ مہنگائی کے تعلق سے پرچون کی دکان کے مالک محمد فرقان نے کہا کہ رمضان المبارک سے قبل آسمان چھوتی مہنگائی روزے داروں کے لئے پریشان کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی مہنگائی بڑھتی رہی ہے لیکن جس طرح روزانہ ہر چیز کے دام بڑھ رہے ہیں اس سے ہرکس و ناکس جیب پر خاصا فرق پڑ رہا ہے۔ تاہم آمدنی ہے کہ بڑھنے کا نام نہیں لے رہی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔


فرقان نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ گزشتہ رمضان میں چینی 35 روپے فی کلو تھی جو آج 40 روپے ہے، آٹا 22 روپے تھا جو اب 30 روپے ہوگیا، اور سب سے اونچی چھلانگ تیل نے لگائی ہے، ایک سال پہلے سرسوں اور ریفائنڈ تیل 100 روپے فی لیٹر تھا جس کی قیمت اب 180 روپے فی لیٹر ہوگئی ہے اور آگے بھی بڑھنے کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ رمضان میں پکوڑی کے بغیر افطار ادھورا ہے۔ پکوڑی بنانے کے لئے بیسن ضروری ہے، گزشتہ سال اس کی قیمت60 روپے تھی وہی بیسن آج 90 روپے کلو تک پہنچ چکا ہے۔ تاہم روح افزا کی بوتل 160 روپے کی ہوگئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سال ہر چیز مہنگی ہے جس کے سبب جو صارفین کلو کے حساب سے سامان لے جاتے تھے وہ اب ضرورت کے مطابق ہی را شن خرید کر لے جاتے ہیں۔ مہنگائی ڈائن ذات نے سحری و افطار میں کھائی جانے والی کھجوروں اور کھجلا، فینی، ٹوسٹ، پا پے، بند کو بھی نہیں بخشا، ماہ صیام میں کھجور دسترخوان کی رونق کو بڑھا دیتا ہے لیکن اس کی خریداری سے لوگوں کی جیب ڈھیلی ہو رہی ہے۔


نمائندہ سے بات کرتے ہوئے جعفر آباد روڈ پر کھجوروں کا ٹھیلا لگانے والے محمد شمیم نے بتایا کہ میں تقریباً دس سالوں سے کھجوروں کا کاروبار کر رہا ہوں، لیکن بیتے دس سالوں میں جس طرح مہنگائی روزانہ بڑھ رہی ہے اس نے ہمیں اور صارفین کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی پر انہوں نے کہا کہ جب کو ئی صارف ہم سے 200 روپے کلو والی کھجور لے جاتا ہے اور کچھ دن بعد وہ دوبارہ آتا ہے تو قیمت بڑھنے پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پچھلی مرتبہ والے دام میں ہی کھجو ر چاہئے۔ اب گاہک کو کون سمجھائے کہ پیچھے سے کھجوریں مہنگی آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس عنبر، براری، فرہاد، کیمیا، نامی کھجور زیادہ فروخت ہوتی ہیں جو گزشتہ برس 200 روپے فی کلو ہوا کرتیں تھیں لیکن اب ان کی قیمت 300 روپے فی کلو ہے۔

گلشن بیکری کے مالک محمد گلفام نے کہا کہ دو برس سے عالمی وبا کورونا انفیکشن اور لاک ڈاؤن نے کاروبار کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی برسوں میں جاکر پوری ہوگی۔ انہوں نے آگے کہا کہ کورونا کے بڑھتے معاملوں کے سبب پورے دو سال بعد زندگی پوری طرح پٹری پر آئی بھی نہیں تھی کہ اب مہنگائی کا جن چراغ سے نکل آیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کھجلا، فینی، بند، ٹوسٹ، پاپے وغیرہ میں تیل کا زیادہ استعمال ہوتا ہے اور آج تیل کے کنستر کی قیمت 2480 روپے ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے اس سال کھجلا 240 روپے فی کلو ہے جو گزشتہ برس 180 تھا اور فینی 200 روپے کلو ہے جو پہلے 160 روپے کلو تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سحری میں کھائے جانے والا بریڈ جس کو عام زبان میں (بند) کہتے ہیں اس کی قیمت میں دو گنا اضافہ ہوا ہے، 10 روپے والا بند اس سال 20 روپے کا ہوگیا ہے۔


محمد گلفام نے کہا کہ مہنگائی لوگوں کا دم نکال رہی ہے لیکن موجودہ حکومتیں سیاسی داؤ پیچ کھیلنے میں مصروف ہیں۔ مہنگائی سے عوام کا برا حال ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے کپڑے تاجروں کا کاروبار متاثر ہوا ہے، رمضان میں جہاں ایک جانب مومنین کثرت سے عبادات کرتے ہیں وہیں دوسری جانب مومینین اچھا لباس، خاص طور پر کرتا پاجامہ پٹھانی سوٹ، پہننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی مہنگائی سے کپڑوں کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کرتے کے کپڑوں کے لیے مشہور کاٹن ہاٹ نامی دکان کے ملک محمد شریف نے کہا کہ کبھی نوٹ بندی، پھر جی ایس ٹی، اور اب مہنگائی نے کاروباریوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری دکان پر 150 روپے میٹر سے لیکر 3 ہزار روپے میٹر تک کا کپڑا دستیاب ہے۔ لیکن امسال کپڑے کی قیمت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور صارفین کو سستا کپڑا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے ان کا کاروبار متاثر تو ہو ہی رہا ہے ساتھ میں دکان پر کام کرنے والے لڑکوں کی تنخوہیں ادا کر پانا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس طرف توجہ دے تاکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پایا جا سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔