سماج

کیا پاکستان کی اعلی عدلیہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے خطرہ بن رہی ہے؟

آج سے ٹھیک دس سال قبل پاکستان کی اعلی عدلیہ نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے جرم میں عہدے سے برطرف کردیا تھا۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں وزیر اعظم کا آئینی مدت پوری نہ کرنا ایک ”معمول“ ہے۔

کیا پاکستان کی اعلی عدلیہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے خطرہ بن رہی ہے؟
کیا پاکستان کی اعلی عدلیہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے خطرہ بن رہی ہے؟ 

ویسے تو پاکستان کے سیاسی کلچر میں وزیر اعظم کا اپنی آئینی مدت پوری نہ کرنا ایک ”معمول" ہے لیکن پینسٹھ سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس کا براہ راست سبب عدالتی فیصلہ تھا۔ اس غیر معمولی قدم کو معروف صحافی سرل المیڈا نے ”عدالتی آمریت" سے تشبیہ دی۔ ان کے مطابق عدالت ”کھیل کے نئے اصول" طے کر رہی ہے، ایک ایسا کھیل جس میں ”بطور کھلاڑی وہ اپنا آپ منوانے کے لیے پرعزم ہے۔"

Published: undefined

اس کے بعد ایک اور وزیراعظم کی برطرفی سمیت عدالتی فیصلوں اور تشبیہات سے بھری جارحانہ زبان دیکھتے ہوئے اسے جوڈیشل ڈکٹیٹرشپ نہ بھی کہیں تو یہ ”جیوڈیشل اووریچ" یعنی عدالت کا اپنی حدود سے تجاوز ضرور ہے جس پر وکلا، سیول سوسائٹی اور اراکین پارلیمان کے علاؤہ اعلی عدلیہ کے ججز بھی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ عدالت کے اس جارحانہ رویے کو عدلیہ بحالی تحریک سے الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں۔

Published: undefined

ملک کی ابتر سیاسی و اقتصادی صورتحال، دہشت گردی کی لہر اور مشرف کے بعد فوج کی مقبولیت میں کمی نے عدلیہ کو موقع فراہم کیا جو 2009 میں بحال ہوتے ہی ”نجات دہندہ" کے روپ میں سامنے آئی۔ مقامی اور بین الاقوامی اداروں کے لیے گذشتہ پندرہ برس سے سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی اور ”ایک اور وزیر اعظم، پانامہ مقدمے کی پوری کہانی" کے مصنف اعظم خان اس وقت کے ماحول کے متعلق ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”ایسا لگتا تھا ملک میں انقلاب برپا ہو گیا ہے۔ میڈیا کا چیف جسٹس افتخار چودھری کو نجات دہندہ بنا کر پیش کرنا عوام کے لیے متاثر کن تھا۔ بڑے بڑے سیکرٹری اور وزا گھنٹوں عدالت میں انتظار کرتے جس سے لگتا واقعی قانون سب کے لیے برابر ہے۔" وہ مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”بعد میں پتہ چلا سب سراب تھا۔"

Published: undefined

لیکن عاصمہ جہانگیر نے یہ سراب پہچاننے میں ذرا بھی دیر نہ کی۔ فروری 2010 میں کراچی پریس کلب کے اندر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”میں نے عدالتی آمریت دیکھی ہے ہم اس طرف جا رہے ہیں،وہ ایسا سخت وقت ہوگا کہ عوام سیاسی آمریت کو بھول جائیں گے۔" انہوں نے افتخار محمد چودھری کے رویے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا، ” وہ چاہتے ہیں ہمارے منہ سے جو بھی لفظ نکلے اسے فوری پورا کیا جائے ورنہ کالے کوٹ والے آپ کو ٹھیک کردیں گے۔ یہ ایک آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کو زیب نہیں دیتا۔"

Published: undefined

ایسا لگتا ہے افتخار چودھری کے مذکورہ رویے نے بعد کی عدالتی تاریخ پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ پاکستان کے سابق اٹارنی جنرل اور نامور قانون دان عرفان قادر ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”ماضی میں مشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے افتخار چودھری نے بیک جنبشِ قلم ان تمام ججز کو فارغ کر دیا جن میں سے بیشتر آئینی صدر نے تعینات کیے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے مرضی کے ججز لگائے اور خود 'چیف آف جوڈیشل سٹاف‘ بن کر بیٹھ گئے۔" وہ کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے پاس جو اختیارات بطور ادارہ تھے وہ فرد واحد تک محدود ہو کر رہ گئے۔ اس سلسلے میں وہ ”ججز تعیناتی اور سوموٹو" کی مثال دیتے ہیں۔

Published: undefined

گذشتہ ایک دہائی میں اعلی عدلیہ کے جو اقدامات مسلسل تنقید کی زد پر رہے ان میں سے ایک آئین کے آرٹیکل (3) 183 کے تحت حاصل سوموٹو اختیارات کا بے تحاشا استعمال تھا۔ خود کو ”بابا رحمتے" اور ”جوڈیشل ایکٹیوزم " کا بانی قرار دینے والے ثاقب نثار نے بطور چیف جسٹس 43 مرتبہ سوموٹو نوٹسز لیے۔

Published: undefined

سوموٹو کے طریقہ کو تبدیل کرنے کے لیے فاروق ایچ نائیک متعلقہ قوانین کا نیا مسودہ تیار کر کے سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں پیش کر چکے ہیں جس میں یہ اختیار فرد واحد کے بجائے تین رکنی بینچ کو دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

Published: undefined

سابق چیف جسٹس کے ہسپتالوں کے دورے، ڈیم فنڈ اور انتظامی امور میں قدم قدم پر مداخلت سے جہاں پارلیمان کمزور ہوئی وہیں عدالتی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ جس وقت انہوں نے بطور چیف جسٹس اپنا عہدہ سنبھالا تب سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 32 ہزار تھی جو دو سال 17 دن بعد ان کی ریٹائرمنٹ کے وقت 40 ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ عدالتوں میں تقریباً 20 لاکھ مقدمات فیصلے کے منتظر ہیں لیکن اعلی عدلیہ کے جج صاحبان کی دلچسپی کا مرکز عدالتی اصلاحات کے بجائے سیاسی معاملات ہیں۔

Published: undefined

ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی 2021 میں شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق قانون کی بدترین حکمرانی کے حوالے سے پاکستان 139 ممالک کی فہرست میں 130ویں نمبر پر ہے جس میں سول اور فوجداری مقدمات کا زیر التوا رہنا ایک بڑی وجہ ہے۔

Published: undefined

یوسف رضا گیلانی کے خلاف توہین عدالت کیس میں بطور وکیل استغاثہ پیش ہونے والے عرفان قادر دو وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کے فیصلوں کو مایوس کن قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول، ”جو لوگ منتخب نہیں ہوئے ان کے پاس یہ اختیار کہاں سے آ گیا کہ وہ عوام کے منتخب نمائندوں کو گھر بھیجیں، بالخصوص وزیراعظم کو، یہ دن دیہاڑے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ہے۔"

Published: undefined

دو وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کے علاؤہ کئی اراکین پارلیمان کو توہین عدالت اور دیگر بنیادوں پر نااہل قرار دینا، نواز شریف کو پارٹی قیادت سے ہٹانا (جس کے بعد ان کی جماعت سینٹ میں پارٹی ٹکٹ کے بغیر الیکشن لڑنے پر مجبور ہو گئی تھی)، 2013 کے انتخابات سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی اور 2018 کے انتخابات سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن کے انتظامی اور آئینی امور میں مسلسل مداخلت سے ان کی ساکھ مجروح کرنا، حساس مقامات میں مخصوص بنچز تشکیل دینا(جس پر جسٹس مقبول باقر نے اپنے الوداعی ریفرنس میں تنقید کی تھی)، ایک سیاستدان کو ”سسلین مافیا" اور ”گاڈ فادر" کے القابات سے نوازنا جبکہ دوسرے کو ”صادق اور امین" کے سرٹیفکیٹ بانٹنے سمیت ایسی کئی مثالیں ہیں جو پاکستان کی اعلی عدلیہ کو قانونی میدان سے نکال کر سیاسی اکھاڑے میں لا کھڑا کرتی ہیں۔

Published: undefined

سابق گورنر پنجاب اور اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ گذشتہ ایک دہائی میں عدلیہ کی پارلیمانی اور سیاسی امور میں مداخلت حد سے زیادہ بڑھی ہے۔ لیکن وہ اس کا حل جمہوری عمل اور آئینی اصلاحات میں دیکھتے ہیں۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، ”دو وزرائے اعظم قربان کرنے کے باوجود سیاست دانوں نے ریاستی اداروں پر حملہ نہیں کیا کیونکہ ہم اداروں کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ پارلیمان کی بالادستی پر سمجھوتہ کر لیں گے۔" ان کا کہنا تھا،”جیسے ہی موقع ملا ہم تمام سیاسی جماعتیں ایسے قوانین ختم کر دیں گے جو فوجی آمروں نے آئین میں شامل کیے اور جن کی آڑ میں غیر منتخب قوتیں عوامی نمائندوں کو ان کے اختیارات سے محروم کرتی ہیں۔"

Published: undefined

جب ہم نے ان سے پوچھا کہ اس قدر سیاسی تفریق میں عوامی نمائندے آئینی ترامیم پر کیسے متفق ہوں گے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، ”ریگزار سیاست میں دشت نوردی انہیں سب کچھ سکھا دے گی۔ آج جو چیزیں دوسروں کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں کل وہی ان کے خلاف استعمال ہوں گی تو انہیں سب سمجھ آجاۓ گا۔"

Published: undefined

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”اٹھارویں ترمیم کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی نے نیب اور آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کو ختم کرنے کے لیے پاکستان مسلم لیگ کو ہر طرح سے قائل کرنے کی کوشش کی۔ آئین میں یہ ٹاٹ کے پیوند فوجی ڈکٹیٹرز نے لگائے تھے لیکن مسلم لیگ تیار نہ ہوئی کیونکہ ان کا خیال تھا یہ دونوں صرف پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال ہوں گے۔ بعد میں یہی چیز میاں نواز شریف کی عدالتی رخصتی کا باعث بنی۔ ایسے ہی ہمارے پی ٹی آئی کے دوست بھی ایک دن سمجھ جائیں گے۔"

Published: undefined

جمہوری عمل نے ہمیں اٹھارویں ترمیم جیسی متفقہ آئینی اصلاحات دیں سو جلد یا بدیر پارلیمان کی بالادستی کے سیاسی جماعتوں ایک بار پھر ویسے ہی ایک ساتھ کھڑی نظر آئیں گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined