اس تجربے میں شامل ہونے کے لیے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور ایک ہفتے کے دوران ہی تقریبا پندرہ لاکھ افراد نے رضامندی ظاہر کر دی تھی کہ وہ بنیادی آمدنی سے متعلق اس طویل المدتی تحقیق میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں۔ منتظمین کو اس مطالعے کے لیے پندرہ سو افراد کی ضرورت ہے اور ان میں سے ایک سو بیس افراد کو ماہانہ بارہ سو یورو فراہم کیے جائیں گے۔
Published: undefined
منتظمین کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''مطالعے میں شامل افراد کو کچھ نہیں کرنا ہو گا۔ انہیں ان تین برسوں کے دوران سات مرتبہ ایک آن لائن فارم میں موجود سوالوں کے جواب دینا ہوں گے۔ ‘‘ اس تجربے کے لیے ایک لاکھ پچاس ہزار ڈونرز نے رقم فراہم کی ہے اور مطالعے میں شامل ہر شخص کو ٹیکس فری بنیادی آمدنی فراہم کی جائے گی۔ تجربے کے آخر میں ہر شخص تینتالیس ہزار دو سو یورو حاصل کر چکا ہو گا۔ مجموعی طور پر اس طرح پانچ عشاریہ دو ملین یورو فراہم کیے جائیں گے۔ یہ تجربہ برلن کے ایک خیراتی ادارے کی طرف سے کیا جا رہا ہے۔
Published: undefined
'مائی بیسک انکم‘ نامی تنظیم کے حکام کے مطابق ملک کے تمام شہریوں کو غیرمشروط ماہانہ بنیادی آمدنی فراہم کرتے ہوئے موجودہ دور کے بہت سے مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔ اس تجربے کے پیچھے نظریہ یہ ہے کہ اگر انسانوں پر مسلسل کافی پیسہ کمانے کا دباؤ نہ ہو تو وہ خود کو مزید تخلیقی، آزاد اور خوش محسوس کریں گے۔ لیکن اس نظریے کی حقیقت کیا ہے، اس کا جواب اس تین سالہ تجربے کے دوران سائنسی بنیادوں پر تلاش کیا جائے گا۔
Published: undefined
اس منصوبے کے سربراہ یؤرگن شوپ ہیں اور وہ جرمن انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ سے وابستہ ہیں۔ ان کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''ہم اس چیز کا مشاہدہ کریں گے کہ اگر لوگوں کو مادی سکیورٹی کی یقین دہانی کروائی جائے تو ان کے رویے کیسے ہوں گے؟‘‘ اس دوران یہ بھی مشاہدہ کیا جائے گا کہ تجربے میں شامل افراد تمام پیسے خرچ کر دیتے ہیں یا پھر کچھ بچت بھی کرتے ہیں۔ کیا وہ محنت کرنا زیادہ کریں گے یا پھر بالکل ہی چھوڑ دیں گے؟ اور آیا وہ ان پیسوں میں سے کچھ عطیہ میں بھی کریں گے؟
Published: undefined
یؤرگن شوپ کے مطابق اس تین سالہ تجربے کے دوران وہ تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو ضروری ہیں۔ لوگوں کا اسٹریس لیول بھی ان کے بالوں کے سیمپلوں سے ماپا جائے گا۔
Published: undefined
غیرمشروط بنیادی آمدنی سے متعلق بحث گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ جب لوگوں کے پاس کچھ کرنے کو ہی نہیں ہو گا تو پھر وہ کیا کریں گے؟ ناقدین کے مطابق یہ ان لوگوں کا دن کو دیکھا جانے والا خواب ہے، جو کمیونٹی کے خرچ پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
Published: undefined
دوسری جانب ماہانہ بنیادی آمدنی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس طرح نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم، ایک دوسرے کا خیال، ہمسایوں کی مدد اور دیکھ بھال جیسے اعمال دوبارہ معاشرے میں اعلی اخلاقی مقام حاصل کر لیں گے۔ سب سے بڑی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مستقبل میں ڈیجیٹلائزیشن اور آٹومائزیشن کی وجہ سے ملازمتوں کے مواقع کم ہو جائیں گے اور اس وقت یہی ماڈل درکار ہو گا۔
Published: undefined
تاہم یہ ماڈل کس قدر کامیاب رہتا ہے، اس کے نتائج تین برس بعد ہی پتہ چلیں گے۔ فی الحال جرمنی میں اس منصوبے کو سیاسی حوالے سے کم ہی حمایت حاصل ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined