سماج

بلوچستان: مقامی لوگوں کا چین کے خلاف غصہ بڑھتا جارہا ہے

گوادر اور مکران ڈویژن کے بعض دیگرعلاقوں میں بڑھتے ہوئے چینی اثرورسوخ کے خلاف مقامی افراد کا احتجاج زور پکڑتا جا رہا ہے۔ الزام ہے کہ ترقی کے نام پر ان کی آزادی سلب اور وسائل لوٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بلوچستان: چینی ٹرالرز کی ماہی گیری پر مقامی آبادی کے تحفظات
بلوچستان: چینی ٹرالرز کی ماہی گیری پر مقامی آبادی کے تحفظات 

گوادر اور مکران ڈویژن میں مقامی آبادی نے مختلف علاقوں میں نقل وحمل پرعائد کی گئی حکومتی پابندیوں پر بھی سخت تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ دوسری جانب گوادرکے ماہی گیر بھی ساحلی علاقوں میں چینی ٹرالرز کی ماہی گیری کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

Published: undefined

چینی ٹرالرز کی ماہی گیری

بلوچ قوم پرست جماعتوں اور ماہی گیروں کی مقامی تنظیم کی کال پر ماہی گیروں نے گوادر اور مکران ڈویژن کے دیگر علاقوں میں گزشتہ ہفتوں کے دوران کئی احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ گوادر میں مقیم ماہی گیروں کی ایک مقامی تنظیم کے رہنما ستار دشتی کہتے ہیں کہ سی پیک اکنامک زونز میں چینی ٹرالرز کی ماہی گیری سے مقامی ماہی گیر نان شبینہ کے محتاج بنتے جا رہے ہیں۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، 'گوادر سمیت دیگر ساحلی علاقوں میں مقامی لوگوں کی آکثریت کا واحد ذرئعہ معاش ماہی گیری سے وابستہ ہے۔ حکومت نے یہاں عوام کو روزگار کی فراہمی کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے ہیں ۔ گوادر میں آب چینی ٹرالرزکو بھی ماہی گیری کے حقوق دئیے جا رہے ہیں۔ ہم نے غیر قانونی شکارمیں ملوث چینی ٹرالرز کی حکومت کو نشاندہی بھی کرائی ہے لیکن اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔‘‘

Published: undefined

بے روزگاری میں اضافہ

ستار دشتی کے بقول گوادر اور ملحقہ علاقوں کے آبی حدود میں چینی ٹرالرزکے غیر قانونی شکار سے مقامی لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں اور ان کے پاس احتجاج کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا،''مقامی ماہی گیروں کے پاس وسائل کی بھی کمی ہے۔ گوادر کے ماہی گیروں کے پاس چھوٹی کشتیاں ہیں اور وہ گہرے پانی میں نہیں جا سکتے دوسری جانب گہرے چینی ٹرالرز میں ماہی گیری کے بڑے جال ہوتے ہیں جو نہ صرف بہت سی مچھلیوں کا شکار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ ان چینی ٹرالرز سے سمندری ماحول بھی تباہ ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

Published: undefined

زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ

ساحلی شہر گوادر میں مقامی آبادی نے اپنی زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ پر بھی شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں۔کوئٹہ کی احتساب عدالت میں گوادر اراضی اسکینڈل کے حوالے جمع کرائے ایک ریفرنس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گوادر کے ناگوری وارڈ میں سمندر کے قریب خصوصی محل وقوع کی حامل انتہائی قیمتی اراضی کی ریکارڈ میں ٹمپرنگ کی گئی ہے۔ بدعنوانی کے اس اسکینڈل میں صوبائی محکمہ مال کے تین تحصیلداروں سمیت آٹھ اہلکاروں پر ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ نیب کے مطابق سرکاری اہلکاروں نے دس لاکھ چونتیس ہزار چھ سو پچاس اسکوائر فٹ اراضی کے ریکارڈ میں ردو بدل کی ہے۔

Published: undefined

حکومت پر مقامی شہریوں کو نظر انداز کرنے کا الزام

بلوچ قوم پرست جماعت، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ملک عبدالولی کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت بلوچ قیادت کو صوبے کے اہم فیصلوں میں نظر انداز کر رہی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان کے ساحل اور وسائل کے مالک مقامی لوگ ہیں۔ یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری پر جو تحفظات سامنے آرہے ہیں حکومت انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کر رہی ہے۔ گوادر میں چینی کمپنیوں کو جو فری ہینڈ دیا جا رہا ہے اس سے یہاں ایک غیر یقینی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔ مقامی لوگ بڑھتی ہوئے چینی اثرو رسوخ کی وجہ سے اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت فکر مند ہیں۔‘‘

Published: undefined

ملک ولی کا کہنا تھا کہ بلوچ قوم ترقی کی کبھی مخالف نہیں رہی ہے لیکن ترقی کے نام پر اپنے استحصال پر کبھی خاموش نہیں رہے گی۔انہوں نے مزید کہا،''گوادر اور بعض دیگر ساحلی علاقوں میں مقامی لوگوں کے لیے چینی کمپنیوں کی وجہ سے سختیاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔ لوگوں کے نقل و حمل کو کئی علاقوں تک محدود کیا گیا ہے۔ روزگار کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ روزگار کی تلاش میں مقامی لوگ جب باہر نکلتے ہیں تو انہیں سکیورٹی کے نام پر روک دیا جاتا ہے۔ آپ خود اندازہ لگایے کہ گوادر کے لوگوں کی زندگی ترقی کے ان تمام دعوؤں کے باوجود کس قدر مشکل مرحلے سے گزر رہی ہے۔‘‘

Published: undefined

باڑ لگانے کی مخالفت

پانچ جولائی کو گوادر میں وزیراعظم عمران خان نے کئی ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا تھا۔گوادرکے مخصوص علاقے کو الگ کرنے کے لیے کچھ عرصہ قبل باڑ لگانے کا کام بھی شروع کیا گیا تھا، جس کی مقامی لوگوں اور صوبے کی سیاسی قیادت نے شدید مخالفت کی تھی۔

Published: undefined

بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئرمین منیر احمد نے گوادر میں باڑ لگانے کے خلاف عدالت عالیہ سے بھی رجوع کیا تھا۔آئینی درخواست میں رہائشی علاقے میں باڑ لگانے کو شہریوں کے بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیا گیا تھا۔ گوادر میں چینی کمپنیوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے خلاف سول سوسائٹی کے لوگ بھی سراپا احتجاج ہیں۔ شہری کہتے ہیں کہ چینی کمپنیوں کی وجہ سے حکومت نے ان کی آزادی سلب کر رکھی ہے اور انہیں دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔

Published: undefined

صوبائی اسمبلی میں بھی بازگشت

سی پیک منصوبے کے حوالے سے بڑھتے ہوئے عوامی تحفظات کی گونج بلوچستان اسمبلی میں بھی سنائی دی ہے۔ چھ جولائی کو اپوزیشن کی ریکوزیشن پر طلب کیے گئے اجلاس بھی بعض اراکین صوبائی اسمبلی نے حکومتی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ترقی کے نام پر صوبے کو کئی بحرانوں سے دوچار کیا ہے، جس سے عوام براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے رکن ثںاء اللہ بلوچ کہتے ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے حکومتی کارکردگی ہمیشہ مایوس کن رہی ہے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''دیکھیں ہم روز اول سے یہ کہتے آ رہے ہیں کہ حکومت سی پیک کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے اب تک جو بھی دعوے سامنے آئے ہیں وہ زمینی حقائق کے برعکس ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ترقی کے عمل میں عوامی شمولیت کو یقینی بنائے۔ جب تک گوادر اور ملحقہ علاقوں کے لوگوں کے تحفظات دور نہیں ہوں گے اس منصوبے کے دور رس نتائج سامنے نہیں آ سکتے ۔‘‘

Published: undefined

ثناء اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے ہر کونے میں لوگ حکومتی بے حسی پر سراپا احتجاج ہیں مگر انہیں کوئی ریلیف نہیں مل رہا ہے،''بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے، یہاں کے وسائل لوٹنے کے لیے ہر سطح پر سازشیں کی جا رہی ہیں۔ گوادر میں ماہی گیروں کے مسائل سمیت مقامی لوگوں کے دیگر خدشات پر اگر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی تو احتجاج کا دائرہ کار صوبے کے دیگر علاقوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔ حکومت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو عوام کو غیر ملکیوں کے مفادات کے لیے دیوار سے نہ لگایا جائے۔ سکیورٹی کے نام پر لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے کبھی مثبت نتائج سامنے نہیں آ سکتے۔‘‘

Published: undefined

واضح رہے کہ چینی کمپنیان گوادر کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں توانائی اور کان کنی کے شعبے میں بھی کام کر رہی ہیں۔پاکستان میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کے حامل سیندک پروجیکٹ پر کام کرنے والی چینی کمپنی کے خلاف بھی حال ہی میں مقامی لوگوں نے احتجاج کیا تھا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined