سماج

‘بھلایا جا رہا ہے‘: صرف دن منانا ہی کافی نہیں

نسل پرستانہ حملوں میں اپنے پیاروں کو کھو دینے والوں کا کہنا ہے کہ جرمن حکومت اور ریاست ایسے ہلاک شدگان کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کم ہی کرتی ہیں۔

'بھلایا جا رہا ہے‘: صرف دن منانا ہی کافی نہیں
'بھلایا جا رہا ہے‘: صرف دن منانا ہی کافی نہیں 

اکیس اگست 1980ء کو غیر ملکیوں سے نفرت کرنے والے تین دہشت گردوں نے ہمیبرگ میں قائم مہاجرین کے ایک مرکز کے ایک کمرے میں کھڑکی کے ذریعے آتش گیر مادہ پھینکا تھا۔ اس کمرے میں ویتنام کے دو شہری اٹھارہ سالہ دوآن لان اور نگوین چاؤ سو رہے تھے۔ اس واقعے میں یہ دونوں شدید زخمی ہوئے اور چند دن بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تھے۔ مہاجرین کے اس مرکز کی دیوار پر ان نسل پرستوں نے لکھ دیا تھا، ''غیر ملکیو! نکل جاؤ۔‘‘

Published: undefined

دوآن لان کی والدہ آج بھی اپنے بیٹے کی موت کو یاد کرتے ہوئے افسردہ ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے جرمن جریدے دی سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ایسا لگتا ہے کہ کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے۔‘‘

Published: undefined

انیس فروری 2020ء کوایک تینتالیس سالہ شخص نے ہاناؤ شہر میں فائرنگ کرتے ہوئے نو افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کو بھی غیر ملکیوں سے نفرت کا نتیجہ قرار دیا گیا تھا۔ اس نسل پرستانہ حملے کی وجہ سے پورا جرمنی سکتے میں چلا گیا تھا۔ ہلاک شدگان اور متاثرین کے لیے منعقد کی جانے والی مرکزی تقریب میں جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر اور چانسلر انگیلا میرکل نے بھی شرکت کی تھی۔

Published: undefined

روبرٹ ایرکان اس طرح کے جرائم سے متاثرہ افراد کی مشاورت کرتے ہیں۔ ان کے بقول، ''ان افراد کے اہل خانہ نے بتایا کہ انہیں اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ سیاستدان کوئی بھی دعویٰ یا وعدہ کریں، جرمنی میں خوف کی فضا مسلسل موجود ہے۔

Published: undefined

یادگاروں کی توڑ پھوڑ

Published: undefined

جرمنی خاص طور پر برلن میں نازی دور میں ظلم و ستم کا نشانہ بننے والوں کی کئی یادگاریں قائم ہیں۔ مثال کے طور پر ہزاروں افراد برلن کے ہولو کاسٹ میوزیم اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کا میوزیم دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ تاہم جرمن معاشرے میں حالیہ دنوں کے دوران ہوئے نسل پرستانہ حملوں کا نشانہ بننے والوں کو اس طرح یاد رکھنے کا فی الحال کوئی رواج نہیں پایا جاتا۔ ان افراد کے لواحقین جب بھی اپنے پیاروں کے لیے کسی یادگار کی تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں، تو ان کی سنی ان سنی کر دی جاتی ہے۔

Published: undefined

اس کے علاوہ پہلے سے موجود یادگاروں کو نقصان پہنچانے اور ان کی توڑ پھوڑ کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ کچھ پر تو نازیوں کا نشان سواستیکا بھی بنایا گیا۔ مثال کے طور پر مشرقی جرمن شہر سوِکّاؤ میں نازی جرمن دور میں شدت پسندوں کا نشانہ بننے والے پہلے شخص اینور سمسیک کی یاد میں شاہ بلوط یا اوک کا ایک درخت لگایا گیا تھا، جسے کسی نے کاٹ دیا۔ شبہ ہے کہ اس کے پیچھے نئے نازیوں کا ہاتھ تھا۔

Published: undefined

نفرت اور تشدد میں اضافہ

Published: undefined

بدھ گیارہ مارچ کو یورپ میں دہشت گردی کا شکار بننے والوں کا یادگاری دن منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے سوِکّاؤ شہر کا دورہ کرتے ہوئے اس تقریب میں شرکت کی، جس میں شاہ بلوط کا نیا درخت لگایا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ ایسے بہت سے مقامی سیاستدان ہیں، جنہیں غیر ملکیوں کی حمایت کرنے اور نسل پرستی کی مخالفت کی وجہ سے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined

,
  • اسٹوڈنٹ ویزا پر ماسکو گئے پنجابی نوجوان کو روسی فوج نے جبراً جنگ میں دھکیل دیا، 12 ستمبر کو بھیجا تھا آخری ’وائس میسج‘

  • ,
  • ’ایک گھر میں 4271 ووٹرس، یہ گھر ہے یا ایک پورا انتخابی حلقہ؟‘ ووٹ چوری کے نئے ثبوت پر کانگریس کا سوال