سماج

ایک مشورہ مانیں کہ کبھی کسی کا مشورہ نا مانیں

دنیا بھر میں لوگوں نے نیزہ بازی اور پتنگ بازی جیسے کئی کھیل کھیلے، لیکن ہمارے معاشرے میں آج کے جدید دور میں’مشورہ بازی‘ لوگوں کا پسندیدہ کھیل بن چکا ہے۔

ایک مشورہ مانیں کہ کبھی کسی کا مشورہ نا مانیں
ایک مشورہ مانیں کہ کبھی کسی کا مشورہ نا مانیں 

نیزہ بازی ایک مقبول اور پرخطر مشغلہ رہا ہے جسے ہمارا تاریخی اور روایتی کھیل سمجھا جاتا ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ پتنگ بازی اور کبوتر بازی نے اس کھیل کی جگہ لے لی۔ پھر جب جدید ٹیکنالوجیز کے طوفان نے ہر منظر یکسر تبدیل کیا تو کھیلوں کے روایتی طور طریقے بھی تبدیل ہو گئے۔ پوری دنیا کو چھوڑ کر صرف اپنے معاشرے کو دیکھیں تو یہاں تیزی سے مقبول ہوتا کھیل 'مشورہ بازی‘ ہے۔ جی ہاں آپ درست سمجھے ہمارے یہاں مفت کا مشورہ دینا بطور مشغله اپنایا جاتا ہے۔ کچھ نابغۂ روزگار مشورہ باز تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو نہ صرف تنقید کرنے کے بعد مشورے سے نوازتے ہیں بلکہ اپنے دیے گئے مشورے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کمر بھی کس لیتے ہیں۔

Published: undefined

ویسے تو پارٹی بازی اور نعرے بازی بھی ہمارے پسندیدہ ترین کھیل ہیں۔ لیکن مشورہ بازی ان میں سرفہرست ہے۔ کیونکہ پارٹی بازی اور نعرے بازی کے لیے بحر حال کسی نا کسی حد تک سازگار ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن مشورے بازی کے لیے کسی جگہ یا ماحول کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ کھیل کبھی بھی کہیں بھی کھیلا جا سکتا ہے۔ چاہے آپ دوستوں کی محفل میں ہوں یا اپنے ساتھی کارکنوں کے ہمراہ ہوں یا پھر آپ کسی سماجی رابطے کی محفل میں ہی کیوں نہ ہوں ہر جگہ ہر وقت مشوروں کی زنبیل کھول کر مفت کے مشورے بانٹے جاسکتے ہیں۔ مثلا اگر کوئی شخص بے روزگار ہو تو پہلے تو اسے یہ باور کرایا جائے گا کہ تمھاری بےروزگاری کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ تم نے درست سمت میں کوشش ہی نہیں کی۔ پھر اپنے مشوروں کی پٹاری کھول کر اسے نت نئے کاروبار اور کمانے کے ڈھنگ سکھائے جائیں گے۔ اور مشورہ باز یہ جاننے کی ہرگز کوشش نہیں کرے گا کہ سامنے والے کے کیا وسائل ہیں اور کیا ذہنی صلاحیتیں اور رجحانات ہیں۔ عموما یہ مشورے تنقید کی پنّی میں لپیٹ کر پیش کیے جاتے ہیں۔

Published: undefined

اکثر خواتین کی محفل میں ایک ایسی خاتون ضرور ہوں گی جو ہر کسی پر تنقید کرنا اور اپنے ذاتی تجربات بیان کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہوں گی۔ چاہے کسی کے کپڑوں پر تنقید ہو یا کھانے کے ذائقے پر اعتراض ہو رہا ہو۔ کسی کو وہ بتا رہی ہوں گی کہ اگر آپ اس لباس پر دوپٹے کا رنگ تبدیل کر لیتں تو یہ زیادہ بہتر لگ سکتا تھا۔ یا پھر کھانا فلاں جگہ سے بنوایا جاتا تو زیادہ بہتر تھا۔ اگر گھر میں پکایا گیا ہے تو اپنی کھانا پکانے کی ترکیب ضرور بتائی جائے گی اور ساتھ ہی زبردستی مفت کا مشورہ کہ اگلی بار یہ ترکیب ضرور آزمائی جائے۔ حد تو یہ ہے کہ اگر آپ سفر کر رہے ہیں تو ساتھ بیٹھے ہوئے شخص سے تعارف حاصل کرتے ہی مفت کے مشوروں کی پٹاری کھل جائے گی۔ پہلا سوال ہوگا کہ شادی شدہ ہیں؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو اس وقت تک آپ کو مفت کے مشورے دیے جاتے رہیں گے جب تک کہ آپ اس بات پر راضی نہ ہو جائیں کہ ٹھیک ہے آپ مجھے رشتہ دکھائیں میں شادی کے لیے تیار ہوں۔ اور اگر جواب ہاں میں ہو تو پھر اگلے سوالات پوچھے جائیں گے یہاں تک کہ کوئی ایسا پہلو مل جائے جہاں مشوروں سے نوازا جا سکے۔

Published: undefined

یوں محسوس ہوتا ہے کہ پورا ملک بلاوجہ کی تنقید کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے ٹی وی ٹاک شوز میں تمام شرکاء ایک دوسرے پر صرف تنقید برائے تنقید اور ساتھ ہی مفت کے مشوروں کا کھیل ہی کھیل رہے ہوتے ہیں۔ اگر تجزیہ کار بات کر رہے ہیں تو ہر ایک ملک پر تنقید برائے تنقید اور ساتھ ہی تمام مسائل کا ایک جامع حل لیے بیٹھے ہوں گے۔ اور ان سب کی ذاتی رائے گویا پتھر پر لکیر ہے۔ ان سے اختلاف رائے گویا بُھس میں چنگاری لگانے کے مترادف ہوگی۔ تنقید بذات خود بری نہیں، اگر مثبت سوچ کے ساتھ تعمیری تنقید برائے اصلاح ہو تو بہتری کی سمت سفر آگے بڑھتا ہے۔

Published: undefined

اگر دیکھا جائے تو ان رویوں کی بنیادی وجہ تو تعلیم کا فقدان اور علم کی کمی کو ہی سمجھا جاتا ہے۔ جو سن کر کانوں کو بھلا لگا اسی پر اپنی رائے قائم کرلی اور پھر وہی رائے حرف آخر ٹہری جوکہ ہر ایک پر مسلط کی جاتی ہے۔ لیکن اس کی ایک اور وجہ بھی نہایت اہم ہے۔

Published: undefined

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو لوگ زیادہ تنقید کرتے ہیں وہ حقیقتاً ذہین ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی پریشانیوں اور مسائل سے نظریں چرانے کے لیے دوسروں کی ناکامیوں یا خامیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ہارورڈ بزنس ریو میں لکھے گئے ایک آرٹیکل میں ڈاکٹر اسٹیون برگلاس جو کہ ہارورڈ میڈیکل اسکول میں پڑھاتے رہے ہیں، لکھتے ہیں کہ ان کے ایک کلائنٹ نے انہیں ایک ڈنر پر بتایا کہ آفس میں کام کرنے والی بظاہر ایک انتہائی ذہین ساتھی کارکن اپنے دوسرے ساتھیوں کے کام پر شدید نکتہ چینی کرتی ہیں یہاں تک کہ ان کی نکتہ چینی سے تنگ آکر کچھ لوگ نوکری چھوڑنے کی حد تک سوچنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس پر اس ڈاکٹر اسٹیون لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے کلائنٹ سے شرط لگائی کہ وہ خاتون اصل میں خود پیسے کی ہیر پھیر میں ملوث ہوں گی۔ کلائنٹ کے مطابق وہ خاتون نا صرف بے حد ذہین بلکہ بے حد ایماندار بھی تھی۔ لیکن پھر انکوائری کرنے پر پتہ چلا کہ وہ خاتون 20 سال سے پیسے کی خوردبرد میں ملوث ہیں۔ اصل میں وہ دوسرے ساتھی کارکنوں پر تنقید اس لیے کر رہی تھیں کہ وہ جانتی تھیں کہ وہ خود ایک غلط کام کر رہی ہیں۔

Published: undefined

ہم میں سے کچھ لوگ اکثر ایسی تنقید کا سامنا نہیں کر پاتے اور ساتھ ہی دیے گئے مفت کے مشوروں پر بغیر سوچے سمجھے عمل کرنے لگتے ہیں۔ ایک بات اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی شخص آپ پر تنقید کر رہا ہے تو اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ آپ میں واقعی وہ کمی یا کوتاہی موجود ہے۔ بلکہ اس کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جس میں سے پہلے نمبر پر علم کی کمی اور دوسرے نمبر پر ذاتی تعصب یا حسد ہوسکتا ہے۔ آپ نے بھی یقینا یہ بات محسوس کی ہو گی کہ ہم میں سے ہر ایک شخص چاہے وہ علم رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو تین چیزوں پر ضرور بات کرے گا جن میں سے ایک مذہب دوسرا سیاست اور تیسرا طبی مشورے ہیں اور ان تینوں موضوعات پر بلا تکان تنقید کے ساتھ ساتھ مفت کے مشورے دیے جائیں گے۔ اگر ہم کسی محفل میں غلطی سے اپنی کوئی جسمانی تکلیف بیان کر دیں تو وہاں موجود ہر شخص مشورے دینے پر تل جائے گا اور ساتھ ہی ہماری زندگی گزارنے کے طور طریقوں پر تنقید بھی کرے گا کہ تمھیں اپنی خوراک میں شامل فلاں فلاں چیز نہیں کھانی چاہیے۔ حتیٰ کہ کینسر کا علاج بھی کسی نا کسی سبزی سے تجویز کر دیا جائے گا۔

Published: undefined

پھر اگر بات مذہب یا عقائد کی ہو تو آپ کے مذہب یا مسلک کو یک جنبش زبان رد کرکے آپ کو کافر قرار دے دیا جائے گا۔ اسی طرح سیاست کے میدان سے چاہے آپ کا کوئی لینا دینا ہو یا نا ہو، پھر بھی بزعم خود دانشور بنے امریکہ تک اپنے مشورے مفت تقسیم کرتے نظر آئیں گے۔ ہم بھی چلتے چلتے ایک مفت کا مشورہ دے ڈالیں کہ ایسے مشوروں پر ہرگز کان نا دھرے جائیں۔

Published: undefined

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined