سماج

بنگلہ دیش میں خواجہ سراؤں کے لئے وراثت کے حقوق

جلد ہی خواجہ سرا اپنے اہل خانہ کی جائیداد کے وارث بن سکیں گے یا جائیداد میں حصہ حاصل کر سکیں گے۔

تصویر گیٹی
تصویر گیٹی 

بنگلہ دیش کے وزیر قانون نے حال ہی میں اعلان کیا کہ جلد ہی خواجہ سرا اپنے اہل خانہ کی جائیداد کے وارث بن سکیں گے یا جائیداد میں حصہ حاصل کر سکیں گے۔ یہ قدامت پسند مسلم اکثریتی ملک میں اس اقلیتی طبقے کو زیادہ سے زیادہ حقوق دلانے کی تازہ ترین کوششوں میں سے ایک ہے۔

Published: undefined

168 ملین افراد پر مشتمل ملک بنگلہ دیش سرکاری طور پر سیکولر ہے لیکن جائیداد سے متعلق قوانين اب بھی مذہبی قوانین کی پیروی کرتے ہيں جن کے تحت والدین کی وفات کے بعد خواجہ سراؤں کو جائیداد کی وراثت سے روک دیا جاتا ہے یا جائیداد میں ان کو کوئی حصہ نہیں دیا جاتا۔

Published: undefined

وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اس ہفتے کابینہ کے اجلاس میں بتایا تھا کہ خواجہ سراؤں کے ليے وراثت کے نئے قوانین تیار کيے جا رہے ہیں۔ وزیر قانون انیس الحق نے نيوز ايجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم اسلامی شريعہ قانون اور اپنے آئین کے مطابق ایسی قانون سازی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی مدد سے خواجہ سراؤں کے ليے جائیداد کے حقوق کو یقینی بنایا جاسکے۔‘‘

Published: undefined

پارلیمنٹ سے اس بِل کی منظوری ابھی باقی ہے لیکن امکان ہے کہ قانون ساز اسمبلی اسے پاس کر دے گی۔ بنگلہ دیش نے سن 2013 کے بعد سے خواجہ سراؤں کو ایک علیحدہ صنف کے طور پر شناخت کی اجازت دے دی تھی۔ ملکی سطح پر خواجہ سراؤں کی تعداد ڈیڑھ ملین کے قریب ہے۔ گزشتہ برس انہیں تیسری صِنف کے طور پر ووٹ ڈالنے کے ليے اندراج کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔ اس ماہ کے آغاز میں بنگلہ ديش ميں مسلم خواجہ سراؤں کے ليے اولين اسلامی مدرسہ بھی کھولا گيا۔

Published: undefined

لیکن ایل جی بی ٹی کیو برادری کو اب بھی وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ نوآبادیاتی دور کا ایک ایسا قانون اب بھی موجود ہے، جس میں ہم جنس پرستی پر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ گو کہ اس کا نفاذ بہت ہی کم ہوتا ہے.

Published: undefined

انسانی حقوق کے ليے سرگرم کارکنوں نے ان اقدامات کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم انہیں اس بارے میں شبہ ہے کہ آیا اس قانون پر عملدرآمد ہوگا کیونکہ بہت سے خاندان اب بھی اپنی خواجہ سرا اولادوں کو سماجی دباؤ کی وہ سے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

Published: undefined

ٹرانسجنڈر رائٹس گروپ سدا کالو کی سربراہ انانیا بانیک نے کہا کہ ایک کارکن کی حیثیت سے انہيں خوشی ہے کہ اس مسئلے پر توجہ دی جا رہی ہے لیکن یہ مسئلہ صرف قانون سازی سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے ليے پورے معاشرے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ بانیک نے کہا کہ وہ 16 سال کی عمر میں خواجہ سِرا بن کر سامنے آئیں تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لوگوں نے ان کے خاندان پر بہت دباؤ ڈالا جس کے نتیجے میں انہيں اپنا گھر چھوڑنا پڑ گيا تھا۔ وہ تنہا نہیں، معاشرے میں لاکھوں افراد یا خواجہ سرا اب بھی موجود ہیں جنہیں اپنے گھر اور خاندان چھوڑنے پڑتے ہیں۔ بانیک نے کہا وہ اپنی شناخت مونث کے طور پر کراتنے کو ترجیح دیتی ہيں۔ اکثر خواجہ سرا اپنے خاندان کے افراد، رشتے داروں یا عزیز و اقارب سے دور ہو جاتے ہیں اور اگر وہ اپنی وراثت کا دعویٰ کرنے گھر واپس جائیں، تو انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Published: undefined

انسانی حقوق کے ليے سرگرم کارکنوں کو سخت گیر مذہبی نظريات کے حامل حلقوں سے سخت ردِعمل کا بھی خدشہ رہتا ہے۔ سن 2015 ء میں انتہا پسندوں نے ایک معروف ہم جنس پرست کارکن اور ایل جی بی ٹی میگزین کے ایڈیٹر کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined