سیاسی

اپنوں کی جاسوسی کرنے کا کیا فائدہ... سید خرم رضا

ہندوستانی حکومت نے اخباری رپورٹوں اور الزامات کو بے بنیاد ٹھہرایا ہے، لیکن جن صحافیوں کے فون میں اس جاسوسی والے سافٹ ویئر کے ہونے کا الزام ہے انہوں نے حکومت سے اپنی پرائیویسی کو لے کر سوال اٹھائے ہیں۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس 

جاسوسی کی اہمیت اور ضرورت پر کوئی بات کرنا فضول ہے، حکومتیں ہر دور میں اپنے دشمن ممالک اور اندورنی حالات پر نظر رکھنے کے لئے جاسوسوں کا استعمال کرتی رہی ہیں، کیونکہ معلومات ہمیشہ ایک بڑا ہتھیار رہا ہے۔ لیکن کسی بھی چیز کا جب غلط استعمال ہونے لگتا ہے تو مسائل کھڑے ہوتے ہیں اور یہی جاسوسی کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے۔ دنیا کے کئی میڈیا گھرانوں نے ایک رپورٹ شائع کی ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں پچاس ہزار لوگوں کے فون کی معلومات ایک سافٹ ویئر کے ذریعہ لی جا رہی ہے یعنی اس سافٹ ویئر کے ذریعہ جاسوسی کی جا رہی ہے۔ یہ رپورٹ امریکہ کے ’واشنگٹن پوسٹ‘، برطانیہ کے ’دی گارجیئن‘ اور فرانس کے ’ لا مونڈ‘ جیسے معروف اخباروں میں بھی شائع ہوئی ہے۔

Published: undefined

سافٹ وئیر جس کے ذریعہ جاسوسی کی جا رہی ہے اس کا تعلق اسرئیلی کمپنی این ایس او سے ہے۔ اب اس جاسوسی کے معاملہ میں مقصد اور ہدف کو لے کر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ ان پچاس ہزار لوگوں میں جہاں دنیا کی کئی اہم شخصیات شامل ہیں، وہیں ہندوستان میں حزب اختلاف کے رہنما اور کانگریس کے سابق سربراہ راہل گاندھی کے فون نمبر بھی شامل ہیں، جن کے فون میں اس سافٹ ویئر کے ہونے کا الزام ہے۔ اس میں ہندوستان کے 40 سے زائد صحافی ہیں اور کئی متعدد شخصیات بھی ہیں جن کی اس سافٹ وئیر کے ذریعہ جاسوسی کرنے کا الزام ہے۔ یہ سافٹ وئیر اسرائیلی کمپنی کا ضرور ہے لیکن اس کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ صرف سرکاری ایجنسیوں کو ہی یہ سافٹ وئیر فروخت کرتی ہے، ساتھ میں اس کا کہنا ہے کہ اس سافٹ ویئر کا استعمال دہشت گردی اور بڑے جرائم کو روکنے میں مدد کے لئے کیا جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق 40 ممالک میں اس کمپنی کے 60 گراہک ہیں۔

Published: undefined

پیگاسس نامی یہ سافٹ ویئر دوسرے سافت ویئر سے مختلف ہے اور زیادہ جدید ہے۔ دوسرے سافٹ ویئر کو کسی کے فون میں داخل کرنے کے لئے پہلے وہاٹس ایپ یا میسج کا استعمال کیا جاتا تھا لیکن اس سافٹ ویئر کو فون میں داخل کرنے کے لئے کسی وہاٹس ایپ پیغام یا میسج کا استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے لئے اس کا فون نمبر چاہیے ہوتا جس کی جاسوسی کرنی ہو اور یہ سافٹ ویئر اس فون میں داخل یا انجیکٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس میں تقریباً کسی کلک کی ضرورت پیش نہیں آتی یعنی یہ زیرو کلک ہوتا ہے۔ یہ سافٹ ویئر ہر برینڈ کے فون میں داخل یا انجیکٹ کیا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

واضح رہے ایک مرتبہ یہ سافٹ ویئر کسی فون میں انجیکٹ کر دیا گیا یا داخل ہو گیا تو پھر اس سافٹ ویئر کو انجیکٹ کرنے والے کو فون کے مالک کا تمام پرائیویٹ ڈاٹا مل جاتا ہے جس میں اس کی کانٹیکٹ لسٹ، کیلنڈر ایونٹس، پیغامات اور وائس کال کی ڈیٹیل وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔ اس کے ذریعہ فون کا کیمرہ، مائکرو فون اور جی پی ایس وغیرہ کو بھی اپنا ہدف بنایا جا سکتا ہے۔ اگر کسی کو یہ پتہ لگ جائے کہ اس کے فون میں یہ سافٹ ویئر انجیکٹ کر دیا گیا ہے تو اس کے لئے یہی بہتر ہوتا ہے کہ وہ اپنا فون بدل لے۔

Published: undefined

جاسوسی کا یہ سافٹ ویئر جو دنیا کے کم از کم پچاس ہزار شخصیات کے فون میں داخل ہے اس کے گراہکوں کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں ہے، لیکن جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے تو ابھی تک ہندوستانی حکومت نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ آیا وہ این ایس او کا گراہک ہے یا نہیں۔ ہندوستانی حکومت نے اخباری رپورٹوں اور الزامات کو بے بنیاد ٹھہرایا ہے لیکن جن صحافیوں کے فون میں اس جاسوسی والے سافٹ ویئر ہونے کا الزام ہے انہوں نے حکومت سے اپنی پرائیویسی کو لے کر سوال اٹھائے ہیں۔ ادھر ایسا نہیں ہے کہ اس سے حکومت کے مخالفین کو ہی تشویش ہے بلکہ حکومت میں موجود لوگ بھی خوفزدہ ہیں کیونکہ جن لوگوں کے فون میں اس سافٹ ویئر کے انجیکٹ کیے جانے کا الزام ہے ان میں دو وزراء بھی شامل ہیں۔

Published: undefined

دنیا کی ان اہم شخصیات میں سعودی عرب کے شاہی خاندان کے لوگ، انسانی حقوق کے کارکنان، سیاست داں، ایگزیکٹو، صحافی وغیر شامل ہیں۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ جہاں آمرانہ حکومتیں ہیں وہاں اس سافٹ ویئر کا زیادہ استعمال ہو رہا ہے اسی لئے سعودی شاہی خاندان کے لوگ بھی اس میں شامل ہیں۔

Published: undefined

خود کو تیار رکھنے کے لئے دشمنوں کی مکمل معلومات ہونی چاہیے لیکن یہ ضروری ہے کہ دشمن اور اختلاف رائے رکھنے والوں میں فرق بنا کر رکھا جائے۔ دہشت گردی اور دشمن ممالک کے ہر منصوبہ کی جانکاری رکھنے کے لئے جاسوسی ضروری عمل ہے لیکن اگر جاسوسی کے اس دائرہ کو اندرونی آواز کو دبانے کے لئے بڑھا دیا جائے تو پھر مسائل پیدا ہوتے ہیں اور اس سے قومی اداروں کو نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ اختلاف رائے جمہوریت کا اہم ترین ستون ہے اور اسی لئے ذرائع ابلاغ کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ ہی ملک میں اختلاف رائے سامنے آتی ہے۔ ہندوستانی حکومت کو اس سارے معاملہ کو سیاست کا نام دے کر دبانا نہیں چاہیے بلکہ اس پر کھل کر جواب دینا چاہیے اور اگر اہم شخصایت کی اس وجہ سے جاسوسی کرائی جا رہی ہے کہ ان کی رائے حکومت کی رائے سےعلیحدہ ہے تو یہ بہت غلط ہے اور جمہوریت کی بقا کے لئے اس کو فوراً بند کیا جانا ضروری ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined