سیاسی

مودی جی! گاۓ کے نام پر ’دہشت زدہ‘ لوگوں کے دَرد کو سمجھیں

مودی جی کو کیا نہیں معلوم کہ گاۓ کے نام پر ان بدنصیبوں کے اہل خاندان کے سروں کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں جن کے جگر گوشوں کو گاۓ کے نام پر بے رحمی سے مار ڈالا گیا، وہ آج بھی دردر انصاف کے لئے بھٹک رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

عبید اللہ ناصر

وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے روایتی کنٹیلے انداز میں مخالفین پر حملہ بولتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگوں کے گاۓ اور اوم کا لفظ سنتے ہی سر کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں نے ملک کو برباد کر دیا ہے۔ وہ متھرا میں ویٹرنری یونیورسٹی میں گایوں اور اور دیگر دو مویشیوں کی صحت اور نسل سدھار پروگرا کے 13 ہزار کروڑ کے ایک پروجیکٹ کا افتتاح کر رہے تھے۔ مودی نے کہا کہ گاۓ کا نام لیتے ہی کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم ملک کو سولھویں صدی میں لے جا رھے ہیں لیکن ان لوگوں کو سوچنا ہوگا کہ کیا مویشیوں کے بغیر دیہی ترقی کی بات سوچی جا سکتی ہے۔ وزیر ا عظم نے جس انداز اور جن الفاظ سے مخالفین کو نشانہ بنایا یہ ان کا جانا بوجھا سوچا سمجھا انداز ہے، ظاہر ہے اپنی ان کنٹیلی باتوں کے ذریعہ مودی جی نے نہ صرف کانگریس اور دیگر مخالف پارٹیوں کو ہندو دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ مسلمانوں کو بھی اصل نشانہ بنایا ہے۔ اشاروں کنایوں میں اپنی بات کہنے اور اسے پولرائزیشن کے لئے استعمال کرنے میں مودی جی لاثانی ہیں، میاں مشرف والا جملہ ہو یا میرے ہارنے پر پاکستان میں خوشیاں منائی جائیں گی جیسے اسٹنٹ باز جملے سخت گیر مسلم مخالف ووٹوں کو متحد کرنے کی ان کی بے حد کامیاب حکمت عملی ہے جس کا فائدہ انھیں گجرات میں اور 2014 سے پورے ملک خاص کر ہندی پٹی میں مل رہا ہے۔

Published: 15 Sep 2019, 10:10 PM IST

وزیر اعظم مودی نے سیاسی طور سے بھلے ہی اپنی پارٹی کے مفاد کی بات کہی ہو اور بھلے ہی ان کی پارٹی کو اس کا سیاسی فائدہ ملے لیکن اپنی تقریر سے انہوں نے ثابت کر دیا کہ دیہی معیشت میں گائے کی اہمیت اور آستھا کے نام پر گاۓ کو لے کر جو کچھ ہو رہا ہے اس کی زمینی حقیقت کا انھیں یا تو ادراک نہیں یا وہ جان بوجھ کر محض سیاسی فائدہ کے لئے ایسے بیان دے رہے ہیں۔ مودی جی کو کیا نہیں معلوم کہ گاۓ کے نام پر ان بدنصیبوں کے اہل خاندان کے سروں کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں جن کے جگر گوشوں کو گاۓ کے نام پر پیٹ پیٹ کر بے رحمی سے مار ڈالا گیا اور وہ لوگ آج بھی در در انصاف کے لئے بھٹک رہے ہیں۔ گاۓ کے نام پر ہجومی تشدد کے شکار ہوئے کسی بھی معاملہ میں آج تک کسی کو سزا نہیں ہوئی، الٹے ضمانت پر چھوٹ کر آنے کے بعد خود ان کے ہی وزیر اور پارٹی کے کارکنان نے ان کا ہیرو کی طرح خیر مقدم کرتے ہیں، ان غنڈوں کو نئے بھارت کا ’بھگت سنگھ‘ کہہ کر نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے بلکہ دوسرے نوجوانوں کو بھی ایسے ہجومی تشسد کی جانب راغب کیا جاتا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ پولس آستھا کے نام پر تفتیش میں ڈھیل دیتی ہے، ڈاکٹر آستھا کے نام پر پوسٹ مارٹم رپورٹ بدل دیتے ہیں اور عدالتیں آستھا کے نام پر مجرموں کو چھوڑ دیتی ہیں، راجستھان کے پہلو خان اور جھارکھنڈ کے تبریز انصاری کے معاملہ میں جو ہوا اس نے ہمارے پورے عدالتی نظام پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے، مگر افسوس وزیر اعظم کو اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔

Published: 15 Sep 2019, 10:10 PM IST

کاش وزیراعظم مودی گاۓ اور دیہی معیشت کی مشکلات کو ایمانداری سے سمجھ کر ان کے مسائل کو حل کرنے کی جانب سنجیدگی سے توجہ دیتے تو ملک ایک اہم مسلہ سے نجات بھی پا سکتا تھا اور دیہی معیشت کو بھی استحکام ہوتا۔ گاۓ کے نام پر ان غریب کسانوں کے بھی بال کھڑے ہو جاتے ہیں جن کی لہلھاتی فصلیں چھٹا چھوڑ دی گئی گایوں اور سانڈوں نے برباد کر دیں ہیں۔ وہ کسان بھی گاۓ کو لے کر پریشان ہیں جو بیکار ہو چکی اپنی گایوں کو فروخت نہیں کر سکتے ان گایوں کی دیکھ بھال اور کھلائی پلائی ان کسانوں پر ایک بڑا بوجھ ہے کیونکہ انھیں اپنے کارآمد مویشیوں کا چارہ کاٹ کر ان بیکار گایوں کو کھلانا پڑتا ہے، نتیجہ میں وہ اپنے کارآمد گایوں، بھینسوں سے خاطر خواہ دودھ نہیں حاصل کر پاتے۔

Published: 15 Sep 2019, 10:10 PM IST

گایوں کی وجہ سے سڑکوں پر حادثہ آئے دن کی بات ہے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی اولین ترجیح میں گاۓ کا تحفظ ہے اس لئے سڑکوں پر آوارہ گھوم رہی گایوں اور سانڈوں کو کوئی ہانک بھی نہیں سکتا، اتر پردیش پولس اب شاہراہوں سے گایوں اور سانڈوں کو ہٹوانے کی کوشش کرنے کے بجائے بورڈ لگوا کر ڈرائیوروں کو آگاہ کر رہی ہے کہ آگے گایوں اور سانڈوں کا جھنڈ بیٹھا ہے، ان کے آرام میں خلل نہ ڈالیں بلکہ رفتار کم کرکے دھرے سے ادھر ادھر سے گزر جائیں۔ مزید احتیاطی تدبیر کے طور پر گایوں اور سانڈوں کی سینگوں پر بیڑی والی لال بتیناں بھی باندھی جا رہی ہیں تاکہ ڈرائیور دور سے ہی انھیں دیکھ لیں۔ صرف اتر پردیش کے بجٹ میں ہی اس سال 600 کروڑ کی خطیر رقم گوشالاؤں کے لئے رکھی گئی ہے, اس کے علاوہ ہر کسان کو 30 روپیہ یومیہ یعنی 900 روپیہ ماہانہ دینے کی بھی ا سکیم شروع کی گئی ہے، بشرطیکہ ایسے کسان کم سے کم دس چھٹا گایوں کی پرورش کرے۔ کسی میں یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی ایک سیکولر ملک میں ایک خاص طبقہ کی عقیدت اور آستھا کے لئے اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کا کیا قانونی اور آئینی جواز ہے اس کے باوجود وزیر اعظم مودی کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کے سروں کے بال گاۓ کا نام آتے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں۔

Published: 15 Sep 2019, 10:10 PM IST

مودی جی کو شکایت ہے کہ گاۓ کی بات کی جاتی ہے تو مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ ملک کو سولہویں صدی میں لے جایا جا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مرکزی وزرا اور بی جے پی کے سینئر لیڈران جب یہ مضحکہ خیز بیان دیتے ہیں کہ گاۓ دنیا کی واحد ایسی جاندار ہے جو سانسوں سے آکسیجن چھوڑتی ہے یا گاۓ کو صرف سہلا دینے سے ہی بہت سے امراض ٹھیک ہو جاتے ہیں یا گاۓ کا پیشاب آب حیات ہے جس میں کینسر سمیت سبھی بیماریوں کا علاج ممکن ہے تو آج کے سائنسی دور میں پوری دنیا ہم پر ہنستی ہے، یہی نہیں ایسے بیان آئین ہند کے بھی منافی ہیں جس کی حلف سبھی وزرا، ممبران پارلیمنٹ اور اسمبلی اٹھاتے ہیں کیونکہ آئین ہند ملک میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کی بات کرتا ہے دیومالائی قصوں کہانیوں کے فروغ کی نہیں۔

Published: 15 Sep 2019, 10:10 PM IST

دیہی معیشت میں مویشیوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سسکتا لیکن کاشتکاری میں جیسی جیسی مشینوں خاص کر ٹریکٹر، ٹیوب ویل وغیرہ کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، مزدوروں کی قلت، نیز بڑھی مزدوری، کسانوں کے لئے نا قبل برداشت ہوتی جا رہی ہے، مویشیوں کا استعمال گھٹتا جا رہا ہے حالت یہ ہے کہ گاؤں میں بیلوں کی جوڑیوں سے زیادہ ٹریکٹر دکھائی دینے لگے ہیں اس لئے بچھڑوں کی اب کوئی قیمت نہیں رہ گئی ہے، دوسرے مویشیوں کی تجارت آستھا کے نام پر کم و بیش ختم کر دی گئی ہے ادھر محکمہ ماحولیات کی سختی اور دیگر وجوہ سے کھالوں کا بیوپار بھی بالکل ٹھپ ہو گیا ہے کروڑوں کا زر مبادلہ کمانے والی اور لاکھوں کا براہ راست اور بالواسط روزگار دینے والی ٹنریاں بند پڑی ہیں۔ ڈیری فارمنگ کے لئے گاۓ بہت موزوں جانور ہو سکتی ہے لیکن آستھا کے نام پر گاۓ کو آدم خور شیر سے زیادہ خطرناک بنا دیا گیا ہے اس لئے اب مسلم کاشتکار تو درکنار خود ہندو کاشتکار گاۓ پالنے میں دلچسپی نہیں دکھا رہے ہیں، نتیجہ میں بھینسوں کے دام آسمان چھو رہے ہیں جس سے ڈیری صنعت کو نقصان ہو رہا ہے۔

Published: 15 Sep 2019, 10:10 PM IST

کاش وزیر اعظم گاۓ اور دیہی معیشت کی مشکلات کو ایمانداری سے سمجھ کر ان کے مسائل کو حل کرنے کی جانب سنجیدگی سے توجہ دیتے تو ملک ایک اہم مسلہ سے نجات بھی پا سکتا تھا اور دیہی معیشت کو بھی استحکام ہوتا۔

Published: 15 Sep 2019, 10:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 15 Sep 2019, 10:10 PM IST