سیاسی

مودی حکومت جمہوری اور وفاقی نظام کو تباہ و برباد کرنے پر آمادہ... سہیل انجم

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا ہے کہ جب بولنے کی ضرورت تھی تو کیجریوال خاموش تھے۔ لیکن اب جبکہ مودی حکومت نے ان کی حکومت پر حملہ کیا ہے تو وہ چیخ پڑے ہیں۔

 نریندر مودی، تصویر پی آئی بی
نریندر مودی، تصویر پی آئی بی 

موجودہ مرکزی حکومت آزادی کے بعد قائم ہونے والی ایسی پہلی حکومت ہے جو انتہائی بے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ ملک کے جمہوری اور وفاقی نظام کو تباہ و برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ کہنے کو تو حکومت آئین کا نام لیتی ہے لیکن عملاً غیر آئینی اقدامات کرنے میں یقین رکھتی ہے۔ اس کو یہ قطعی پسند نہیں کہ ملک میں جمہوریت باقی رہے یا وفاقی نظام مضبوط ہو۔ وہ یکے بعد دیگرے آئین و جمہوریت کو کمزور کرنے کے اقدامات کرتی رہتی ہے۔

Published: undefined

چونکہ مرکز کے ساتھ ساتھ ملک کی تمام ریاستوں پر حکومت کرنا بی جے پی کا خواب ہے اس لیے وہ اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کی ہر جائز ناجائز ترکیب استعمال کرتی ہے۔ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے وہاں حکومت کے اختیارات چھیننے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی مرکزی فلاحی اسکیموں کا بجٹ روک کر تو کبھی دوسرے طریقوں سے۔ ایسا کرنے کا مقصد عوام میں اپوزیشن پارٹیوں کی حکومتوں کو بدنام کرنا ہے تاکہ عوام ان سے بدظن ہو جائیں اور اگلے الیکشن میں بی جے پی کو ووٹ دیں۔

Published: undefined

بی جے پی کی اس ہوس کی تازہ شکار بنی ہے دہلی کی حکومت۔ گزشتہ دو اسمبلی انتخابات میں شرمناک شکست ابھی تک بی جے پی سے ہضم نہیں ہو سکی ہے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کا الزام ہے کہ مرکزی حکومت نے عام آدمی پارٹی کے ممبران کو خریدنے کی کوشش کی لیکن جب وہ اس میں ناکام رہی تو اس نے ایک دوسرا حربہ اختیار کیا۔ اور اس طرح چور دروازے سے دہلی پر حکومت کرنے کا پلان بنایا۔

Published: undefined

اس کے لیے اس نے جو طریقہ اختیار کیا وہ انتہائی غیر آئینی ہے اور سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ کے فیصلے کے منافی ہے۔ اس نے گزشتہ دنوں ’’جی این سی ٹی ڈی بل‘‘ پارلیمنٹ سے منظور کروایا جس کے ذریعے دہلی کی منتخب حکومت کے اختیارات چھین لیے گئے اور مرکز کے مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر کو زیادہ اختیارات دے دیئے گئے۔ اس بل میں کہا گیا ہے کہ دہلی حکومت کا مطلب ایل جی۔ یعنی اب جب بھی دہلی حکومت یا دہلی سرکار کہا جائے گا تو اس کا مطلب ہوگا لیفٹیننٹ گورنر۔

Published: undefined

گویا منتخب حکومت کی اب کوئی وقعت نہیں ہے۔ جو کچھ ہے وہ ایل جی ہے۔ ابھی تک تین شعبے ایسے تھے جو مرکز کے پاس تھے۔ یعنی زمین، پولیس اور لا اینڈ آرڈر۔ ان تینوں شعبوں کے سلسلے میں دہلی حکومت کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے علاوہ وہ جو بھی انتظامی فیصلے کرتی اس کے لیے ایل جی کی منظوری ضروری نہیں تھی۔ لیکن مذکورہ بل کے مطابق دہلی حکومت کوئی بھی انتظامی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ ایل جی جس فیصلے کو چاہیں گے مسترد کر دیں گے۔

Published: undefined

تمام اپوزیشن پارٹیوں نے اس بل کی مخالفت کی تھی۔ لیکن پہلے لوک سبھا سے اسے منظور کروایا گیا اور ا س کے بعد راجیہ سبھا سے۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے واک آوٹ کے درمیان صوتی ووٹوں سے اسے منظور کر لیا گیا۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور کانگریس رہنما ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ میں اب تک جتنے بھی بل پیش کیے گئے یہ بل اب تک کا سب سے مہلک اور غیر آئینی بل ہے۔ ان کے مطابق آئین میں کہا گیا ہے کہ دہلی کو ایک مکمل ریاست کا درجہ ملنا چاہیے اور وہ انتظامات جو دوسری ریاستوں پر نافذ ہوتے ہیں اس پر بھی نافذ ہوں گے۔ البتہ زمین، پولیس اور لا اینڈ آرڈر اس سے مستثنیٰ ہیں۔

Published: undefined

یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی مودی حکومت نے دہلی حکومت کے اختیارات چھیننے کی کوشش کی تھی جس کے بعد دہلی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ اس معاملے میں ابھیشیک منو سنگھوی بھی ایک وکیل کی حیثیت سے پیش ہوئے تھے۔ اس وقت سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بنچ نے دہلی حکومت کے اختیارات کو ایل جی کے اختیارات پر ترجیح دی تھی۔ سنگھوی کا کہنا ہے کہ مذکورہ بل نہ صرف یہ کہ آئین کی دفعہ 239 اے اے کے منافی ہے بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور وفاقی روح کے بھی خلاف ہے۔

Published: undefined

وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کا کہنا ہے کہ مرکز نے دہلی پر حکومت کرنے کے لیے چور دروازے کا استعمال کیا ہے۔ سسودیا کے مطابق حکومت آئینی و قانونی ماہرین سے تبادلہ خیال کر رہی ہے اور جو بھی ضروری ہوگا کیا جائے گا۔ کانگریس سمیت دیگر تمام اپوزیشن پارٹیوں نے اس کی شدید انداز میں مخالفت کی ہے۔ قائد حزب اختلاف کانگریس لیڈر ملکارجن کھرگے نے بھی حکومت کے اس فیصلے کی شدید مذمت کی ہے۔

Published: undefined

حالانکہ اس سے قبل تمام پارٹیوں نے دہلی کو مکمل ریاست کا درجہ دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ بی جے پی نے بھی اپنے کئی انتخابی منشور میں یہ وعدہ کیا تھا لیکن جب اس نے دیکھا کہ دہلی کے عوام نے اسے دہلی پر حکومت کرنے کا موقع نہیں دیا تو اس نے ہاتھ گھما کر کان پکڑ لیا۔ دراصل یہ حکومت ترقی کی نہیں تنزملی کی حامی ہے۔ اس نے اس سے پہلے جموں و کشمیر میں وفاق کو تباہ کیا اور ایک مکمل ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو خطوں میں تبدیل کر دیا۔ اس کا بھی مقصد دہلی سے کشمیر پر حکومت کرنا ہے۔ اب اس نے یہی کام دہلی میں کیا ہے۔ دوسری ریاستوں میں بھی وہ اسی قسم کی حرکتیں کرتی ہے اور ان کے اختیارات چھیننے کی کوشش کرتی ہے۔

Published: undefined

لیکن بعض تجزیہ کاروں اور سیاسی مبصروں کا خیال ہے کہ اس صورت حال کے لیے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال بھی ذمہ دار ہیں۔ انھوں نے پہلے دور حکومت میں مرکز سے لڑائی کرنے کو اپنی عادت بنا لی تھی۔ دوسری مدت میں اگرچہ انھوں نے ٹکراؤ کی پالیسی نہیں اپنائی لیکن مختلف امور پر ایل جی سے ان کا ٹکراؤ ہوتا رہا ہے۔ بعض مبصرین اس سے بھی آگے کی بات کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کیجریوال کو مودی حکومت کے اس فیصلے سے جھنجلاہٹ ہو رہی ہے لیکن انھوں نے بھی روایتی سیاست دانوں کی مانند اپنا کردار بنا لیا ہے۔

Published: undefined

جب وہ سیاست میں آئے تھے تو انھوں نے ایک الگ قسم کی سیاست کی بات کی تھی اور کچھ دنوں تک انھوں نے الگ انداز میں سیاست کو اپنایا بھی لیکن رفتہ رفتہ وہ بھی روایتی سیاست دانوں کے نقش قدم پر چلنے لگے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے بی جے پی کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا۔ جب مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی دفعہ 370 کا خاتمہ کیا اور ایک مکمل ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو خطوں میں تقسیم کیا تو انھوں نے اس کا خیرمقدم کیا تھا۔

Published: undefined

اس کے علاوہ انھوں نے سی اے اے کے خلاف شاہین باغ کے احتجاج کے معاملے میں اگر چہ بی جے پی کی پالیسی نہیں اپنائی لیکن ان کی پالیسی عوام اور بالخصوص سی اے اے مخالف طبقات کے حق میں بھی نہیں تھی۔ انھوں نے نہ تو اسمبلی الیکشن سے قبل، نہ اس کے دوران اور نہ ہی اس کے بعد شاہین باغ کے احتجاجیوں کی حمایت کی یا ان کے حق میں آواز اٹھائی۔ انھوں نے بالکل بے اعتنائی برتی۔ حالانکہ یہ مسلمان اور دہلی کے انصاف پسند طبقات ہی تھے جنھوں نے ووٹ دے کر ان کی پارٹی کو کامیاب بنایا اور ان کی حکومت قائم کروائی تھی۔

Published: undefined

معاملہ یہیں تک نہیں ہے۔ جب شمال مشرقی دہلی میں مسلم مخالف فساد برپا ہوئے تو اس وقت بھی انھوں نے مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا اور ان کا رویہ بھی بالکل بی جے پی لیڈروں جیسا رہا۔ اب بھی انھوں نے ایک پولیس افسر کے قتل پر اس کے بھائی کو ملازمت دینے کا اعلان تو کیا ہے لیکن فساد میں تباہ حال مسلمانوں کی مدد اس طرح سے نہیں کی جیسی کہ کی جانی چاہیے۔ انھوں نے فساد زدگان کے ساتھ کسی ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بلکہ فساد کے دوران وہ بالکل خاموش رہے۔

Published: undefined

اور اب انھوں نے بھی ہندوتوا کی راہ اپنا لی۔ بی جے پی نے ملک میں نام نہاد دیش بھکتی کی جو ہوا چلا رکھی ہے عام آدمی پارٹی بھی اس ہوا میں بہہ گئی۔ دہلی حکومت بھی نصاب میں دیش بھکتی کا کورس شامل کرنے جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ رام مندر کی تعمیر مکمل ہو جانے کے بعد وہ دہلی کے سینئر سٹیزنس کو ایودھیا کی مفت سیر کرائے گی اور ان کی آمد و رفت اور قیام و طعام کا خود بند و بست کرے گی۔

Published: undefined

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے کہا ہے کہ جب بولنے کی ضرورت تھی تو کیجریوال خاموش تھے۔ لیکن اب جبکہ مودی حکومت نے ان کی حکومت پر حملہ کیا ہے تو وہ چیخ پڑے ہیں۔ اگر انھوں نے پہلے آواز اٹھائی ہوتی تو ممکن ہے کہ ان کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ہوتا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined