دنیا بھر کی جیلوں میں عورتوں کی تعداد تشویشناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ غربت، بدسلوکی اور امتیازی قوانین کی وجہ سے لاکھوں خواتین سلاخوں کے پیچھے پہنچ رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کے خلاف بنائے گئے کئی سخت قوانین انہیں مجرم بنا رہے ہیں، جب کہ حقیقت میں وہ سماجی عدم مساوات اور پالیسی کی ناکامیوں کی شکار ہیں۔ آئیے ذیل میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ممالک کی جیلوں میں قید خواتین کی تعداد کیا ہے؟ کن وجوہات کی بنیاد پر جیلوں میں عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، اور ان کے کیا مناسب حل ہو سکتے ہیں؟
Published: undefined
اس وقت دنیا بھر میں 7،33،000 سے زائد خوتین جیلوں میں بند ہیں۔ مرد قیدیوں کے مقابلے میں خواتین قیدیوں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ 2000 کے بعد سے خاتون قیدیوں کی تعداد میں 57 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جب کہ مرد قیدیوں کی تعداد میں صرف 22 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ رپورٹ آفیشیل طور پر 17 مارچ کو جاری کی جائے گی، لیکن ’دی گارجین‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے یہ خصوصی رپورٹ پہلے ہی مل چکی ہے۔
Published: undefined
رپورٹ کے مطابق کئی خواتین کو معمولی جرائم کی وجہ سے جیل بھیج دیا جاتا ہے، جیسے کہ بچوں کے لیے کھانا چرانا، بھیک مانگنا یا غیر رسمی طور پر کام کرنا۔ کچھ ممالک میں خواتین صرف اس وجہ سے جیل میں ہیں کہ وہ اپنے قرضے ادا نہیں کر سکیں، جو کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ سیرالیون جیسے ممالک میں خواتین کو دھوکہ دہی اور جھوٹے بہانے سے رقم حاصل کرنے جیسے الزامات کی سزا دی جاتی ہے۔ یہ قانون نوآبادیاتی دور کے ’لارسینی ایکٹ‘ سے جڑے ہوئے ہیں، جو خواتین کے استحصال کا ایک آلہ بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ کئی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہونے کے بعد یا اپنے خاندان کی کفالت کے لیے جنسی کام اور منشیات کی فروخت پر مجبور ہیں۔ لیکن ان کے حالات کو سمجھنے اور درست کرنے کے بجائے انہیں مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔
Published: undefined
دنیا کے کئی ممالک میں آج بھی نوآبادیاتی دور کے پرانے قوانین کے تحت خواتین کو سزا دی جاتی ہے۔ اسقاط حمل، خودکشی کی کوشش اور ہم جنس پرست تعلقات جیسے مسائل کو کئی جگہوں پر جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں جادو ٹونے جیسے توہم پرستی کے الزامات کے تحت بھی خواتین کو جیل میں ڈالا جاتا ہے، خاص کر ان خواتین کو جو معاشرے کے طے شدہ معیارات پر پورا نہیں اترتی ہیں، جیسے بیوہ، مطلقہ یا بے اولاد خواتین۔
Published: undefined
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کئی ممالک میں خواتین کے لباس اور پہناوے پر بھی سخت قوانین نافذ ہیں۔ مثال کے طور پر مئی 2022 میں زیمبیا کی ایک کاروباری خاتون اور سوشل میڈیا انفلوئنسر ایرس کینگو کو غیر مہذب لباس پہننے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا، کیونکہ انہوں نے ایک فیشن ایونٹ میں شفاف سیاہ کپڑے پہنے تھے۔ ایران میں حجاب کے بغیر باہر نکلنا پہلے سے ہی جرم تھا، لیکن نئے قوانین کے تحت ’’عریانیت کوفروغ دینے، غیر مہذب یا غیر مناسب لباس پہننے پڑ 15 سال تک قید کی سزا یا سزائے موت بھی دی جا سکتی ہے۔‘‘
Published: undefined
رپورٹ میں وارننگ دی گئی ہے کہ اگر یہ رجحان بدستور جاری رہا تو جلد ہی خاتون قیدیوں کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اسے روکنے کے لیے کچھ اقدامات اٹھانے کی سفارش کی گئی ہے:
1. خاتون قیدیوں سے منسلک اعداد و شمار کو وسیع پیمانے پر مرتب اور تجزیہ کی جائے۔
2. معمولی جرائم پر جیل کی سزا کے بجائے متبادل حل اپنایا جائے۔
3. ایسے قوانین کو ختم کیا جائے جو انسانی حقوق اور بین الاقوامی معیارات کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined