بہار میں لاٹری سے پرنسپل کی تقرری تباہ کن تجربہ، مرکز مداخلت کرے: مایاوتی

مایاوتی نے بہار کی پٹنہ یونیورسٹی میں لاٹری کے ذریعے پرنسپلوں کی تقرری کو تعلیمی نظام کے لیے مہلک قرار دیا۔ انہوں نے مرکز سے اس غیر سائنسی نظام پر روک لگانے کا مطالبہ کیا ہے

مایاوتی، تصویر یو این آئی
مایاوتی، تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

لکھنؤ: بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی صدر مایاوتی نے بہار کی پٹنہ یونیورسٹی سے منسلک کالجوں میں لاٹری کے ذریعے پرنسپلوں کی تقرری کو اعلیٰ تعلیمی نظام کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے مرکز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس عمل کے سلسلہ میں فوری طور پر مناسب کارروائی کرے۔

مایاوتی نے جمعہ کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس’ پر لکھا کہ پٹنہ یونیورسٹی کے پانچ کالجوں میں لاٹری کے نئے اور غیر روایتی نظام کے تحت پرنسپلوں کی تقرری نے ملک بھر میں تعلیمی حلقوں کو حیران اور فکرمند کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے تجربات نہ صرف غیر سائنسی ہیں بلکہ تعلیمی اداروں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ روایت سے ہٹ کر، لاٹری سسٹم کے تحت تقرری کے نتیجے میں کیمسٹری کے پروفیسر انیل کمار کو 1863 میں قائم ہونے والے پٹنہ کالج کا پرنسپل بنا دیا گیا، حالانکہ یہ ادارہ محض آرٹس کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی طرح پروفیسر الکا یادو کو پٹنہ یونیورسٹی میں سائنس کالج کی پرنسپل مقرر کیا گیا، جبکہ ان کا پس منظر سائنس سے مختلف ہے۔

مایاوتی نے کہا کہ پٹنہ کامرس کالج میں بھی اسی طرز پر تقرری کی گئی، جہاں آرٹس فیکلٹی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سوہیلی مہتا کو پرنسپل بنایا گیا، باوجود اس کے کہ اس کالج میں ان کا مضمون پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ مزید برآں، خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مشہور مگدھ مہیلا کالج کو پروفیسر این پی ورما کی شکل میں اس کی تاریخ میں دوسری بار ایک مرد پرنسپل ملا ہے۔ جبکہ پروفیسر یوگیندر کمار ورما نے لاٹری کے ذریعے پٹنہ لاء کالج کے پرنسپل کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔


بی ایس پی صدر نے سوال اٹھایا کہ آخر ایسا عجیب و غریب تجربہ کیوں کیا گیا، جبکہ پرنسپل جیسے کلیدی عہدوں پر تقرری کے لیے شفاف، منصفانہ اور اہلیت پر مبنی عمل موجود ہے؟ ان کے مطابق، اس طرح کی لاٹری سسٹم کی بنیاد پر تقرری دراصل انتظامیہ کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش ہے اور اس سے تعلیمی معیار مزید گر سکتا ہے۔

مایاوتی نے متنبہ کیا کہ اگر اسی طرز پر میڈیکل، انجینئرنگ یا سائنس کے اداروں میں بھی تقرری کی گئی تو یہ قدم تعلیمی نظام کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دے گا۔ انہوں نے حکومت ہند سے اپیل کی کہ وہ فوری مداخلت کرے اور اس مہلک روایت کو روکنے کے لیے عملی قدم اٹھائے، تاکہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کا وقار برقرار رہے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم جیسے حساس شعبے میں اس طرح کے غیر سنجیدہ تجربات سے گریز کیا جانا چاہیے، کیونکہ اس کا اثر براہ راست لاکھوں طلبہ کے مستقبل پر پڑتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔