سپریم کورٹ کا نیٹ یو جی نتائج میں مداخلت سے انکار، کہا- ’قومی امتحان کو ایک طالب علم کے لیے بدلا نہیں جا سکتا‘

سپریم کورٹ نے 2025 نیٹ یو جی نتائج چیلنج کرنے والی ایک طالب علم کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ انفرادی شکایت پر فیصلہ ملک گیر اثر ڈال سکتا ہے، لہذا مداخلت کرنا مناسب نہیں ہے

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو 2025 کے نیٹ یو جی (نیشنل ایلیجبیلیٹی کم انٹرنس ٹیسٹ فار انڈرگریجویٹ) کے نتائج کو چیلنج کرنے والی ایک طالب علم کی درخواست سننے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے واضح طور پر کہا کہ اس معاملے میں مداخلت پورے ملک کے طلبہ کو متاثر کر سکتی ہے، اس لیے محض ایک طالب علم کی شکایت پر ملک گیر امتحان کے نتائج پر اثر ڈالنا مناسب نہیں ہوگا۔

یہ عرضی جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے امیدوار شوم گاندھی رینا کی جانب سے داخل کی گئی تھی، جن کا کہنا تھا کہ نیٹ یو جی 2025 کے امتحان میں ایک ایسا سوال شامل تھا جس کے ایک سے زیادہ درست جوابات ہو سکتے تھے۔ ان کے مطابق متعلقہ سوال کے جواب میں صرف ایک آپشن کو درست تسلیم کیا گیا، جبکہ ان کے منتخب کردہ جواب کو غلط قرار دے دیا گیا۔

نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کے ذریعے منظم کیے گئے اس قومی سطح کے میڈیکل انٹری امتحان کے نتائج میں، شوم کی آل انڈیا رینک 6783 اور جنرل زمرے میں رینک 3195 رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے جواب کو درست تسلیم کیا جائے تو وہ پانچ اضافی نمبر حاصل کریں گے، جس سے ان کی درجہ بندی نمایاں طور پر بہتر ہو سکتی ہے۔


تاہم، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس آر مہادیون پر مشتمل دو رکنی بنچ نے عرضی گزار کی دلیلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بنچ نے کہا، ’’ہو سکتا ہے آپ کی بات درست ہو لیکن یہ ایک آل انڈیا امتحان ہے، جس میں لاکھوں طلبہ شریک ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس بنیاد پر نتائج میں ترمیم کرتے ہیں تو اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔‘‘

عرضی گزار کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل آر بالاسبرامنیم نے عدالت کو یاد دلایا کہ 2024 میں سپریم کورٹ نے اسی نوعیت کے ایک معاملے میں نیٹ یو جی کے نتائج میں مداخلت کی تھی۔ اس وقت عدالت نے آئی آئی ٹی دہلی کے ماہرین کی رائے لی تھی اور کچھ سوالات کے جوابات کی تصدیق کے بعد نتائج میں ترمیم کروائی تھی۔

اس پر جسٹس نرسمہا نے وضاحت دی کہ 2024 کا معاملہ اس سے مختلف تھا کیونکہ اس وقت بڑی تعداد میں طلبہ نے شکایات کی تھیں، جس سے واضح ہوا تھا کہ امتحان میں وسیع سطح پر مسئلہ ہے لیکن اس کیس میں صرف ایک امیدوار کی انفرادی شکایت ہے۔‘‘

عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر ہر طالب علم کی ایسی درخواستوں پر عدالتیں نتائج میں رد و بدل کرنے لگیں، تو پورے امتحانی نظام پر سوال کھڑے ہو جائیں گے۔ اسی لیے عدالت نے مداخلت کرنے سے انکار کرتے ہوئے عرضی کو خارج کر دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔