ایران میں منایا جانے والا سب سے اہم تہوار''نوروز‘‘ اب قریب ہے۔ لیکن اس سال سب کچھ ہی مختلف ہے۔ 21 مارچ کو، ایرانی بہار کے آغاز کا جشن مناتے ہیں۔ یہ روایتی طور پر سفر، رشتہ داروں سے ملنے جلنے، خریداری کرنے اور خوشیاں منانے کا ایک موقع ہوتا ہے۔ ایران اس وقت کورونا سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے۔
Published: undefined
تہران کے ڈی ڈبلیو صارفین کے مطابق، اس بار تہران میں ماحول اور مزاج انتہائی افسردہ ہے۔ نئے کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی وجہ سے، تہران میں حکومت نے تمام شہریوں کو گھر بیٹھے رہنے کو کہا ہے۔ لیکن ہر ایک کے پاس رہنے کے لیے مکان نہیں ہوتا ہے۔ غیر سرکاری تنظیم ''پروٹیکٹ دی اسٹریٹ چلڈرن‘‘ کے امیر حسین بہاری نے کہا ''گلی کوچوں میں زندگی بسر کرنے والے بچے لازمی طور پر اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔ چاہے ملک وبا سے کتنا ہی سخت متاثر کیوں نہ ہو۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
ایران کی وزارت محنت کے مطابق ، نو سے 17 سال کی عمر کے تقریبا ڈیڑھ لاکھ بچے ایران میں کام کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ حکام کو یہ تک نہیں معلوم کہ ان میں سے کتنے تہران میں رہتے ہیں، کتنے اس سے باہر؟ وہ زیادہ تر غریب خاندانوں سے ہی آتے ہیں اور چھوٹی پروڈکشن کمپنیوں ، گل فروشوں کی حیثیت سے یا کچرا ٹھکانے لگانے والی کمپنیوں کے لیے سستی مزدوری کرتے ہیں۔
Published: undefined
ہر سال فروری کے وسط میں ان کے پاس خاص طور پر بڑی تعداد میں آرڈرز آتے ہیں۔ سب سے قدیم اور اہم ایرانی تہوار ''نوروز‘‘ سے کچھ دنوں قبل، تہران میں بازار لوگوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ ہر کوئی چھوٹے بڑے ہر طرح کے تحفے یا پھول خریدتا ہے۔ بعض گھروں میں بڑی خریداری ہوتی ہے یا سالانہ صفائی کا پروگرام ہوتا ہے اور صفائی کے لیے بھی مدد کی تلاش ہوتی ہے- عام طور پریہ لاوارث اور بے گھربچے اس طرح کی مزدوری کرتے ہی۔ لیکن اس سال یہ سب کچھ نہیں۔ وائرس کا خوف لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کیے ہوئے ہے۔
Published: undefined
Published: undefined
بدھ (11.03.2020) کو حکام کے مطابق ، متاثرہ افراد کی تعداد 8،042 تھی، کم سے کم 291 افراد پھیپھڑوں کی بیماری COVID-19 کے سبب ہلاک ہوچُکے ہیں۔ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ شمالی ایران کے صوبے گیلان کے رکن پارلیمنٹ غلام علی جعفرزادہ کے بقول ،'' کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیے بغیر مریضوں کی موت اور تدفین کی جاتی ہے۔‘‘ گیلان بحیرہ کیسپین پر دارالحکومت تہران سے 200 کلومیٹر شمال میں واقع ہے اور یہ ایران کی سب سے مشہور سیاحتی منزل ہے۔ ان کے پارلیمانی ساتھی ، نو منتخب رکن پارلیمان محمد علی رمیسانی جن کا تعلق بھی گیلان سے تھا کے علاوہ بارہ دیگر سیاستدان اور اعلٰی عہدے دار پہلے ہی اس انفیکشن سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
Published: undefined
ایرانی وزارت صحت کو توقع ہے کہ اگلے دو ہفتوں میں یہ وبا مزید پھیل جائے گی۔ تہران کی میڈیکل یونیورسٹی میں متعدی بیماریوں کے پروفیسر منو محراز نے اندازہ ظاہر کیا ہے کہ تقریبا 80 ملین ایرانیوں میں سے 40 فیصد اس وائرس سے متاثر ہوجائیں گے۔ COVID-19 مرد، خواتین اور بچوں کو یکساں طور پر متاثر کرتا ہے۔ لیکن ان تینوں پر اثرات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ محراز کا کہنا ہے کہ بچے اکثر اس مرض کے اثرات محسوس نہیں کرتے مگر یہ اسے پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
سماجی کارکن بہاری کہتے ہیں،''بدقسمتی سے، اب تک ہم معاشرتی طور پر پسماندہ گروپوں جیسے کے اسٹریٹ چلڈرن کے لیے حفاظتی اقدامات سے محروم ہیں۔ مثال کے طور پر، ایسی کوئی جگہیں نہیں ہیں جہاں ان بچوں کو دستانے یا جراثیم کشی کا سامان مل سکے۔ ایسا کوئی مرکز یا ہسپتال بھی نہیں ہے جہاں ان بچوں اور ان کے اہل خانہ کا ہنگامی حالت میں علاج کرایا جا سکے۔ ان میں سے بہت سے افراد کی انشورنس بھی نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
ایران جیسے نوجوان معاشرے میں جہاں اکثریت 30 سال سے کم عمروں کی ہے وہاں اس وقت دارالحکومت تہران ایک نہایت افسردہ، پژمردہ شہر کی تصویر کشی کر رہا ہے اور سڑک کے یہ بچے غمزدہ شہر کے ان مناظر کا حصہ ہیں۔ بہت سے شہری اب ان پرتوجہ بھی نہیں دیتے ہیں۔ ایرانی حکومت نے پچھلے 35 سالوں میں ان بچوں کے تحفظ اور ان کی حمایت کے لیے 20 سے زیادہ مختلف منصوبے پیش کیے ہیں ، یہ سب ناکام ہوچکے ہیں۔ موثر کام صرف این جی اوز کے ذریعہ کیا جاتا ہے جو عطیات کے ذریعہ فنڈز بھی اکٹھا کرتی ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
بہاری اور ان کے ساتھیوں نے حالیہ ہفتوں میں تہران کے پسماندہ علاقوں کی گلیوں کے بچوں کو انفیکشن کے خطرے سے آگاہ کرنے اور جراثیم کش مواد تقسیم کرنے کی مہم چلائی۔ بہاری کہتے ہیں،'' ان بچوں کو ملازمت دینے والے آجرین پر ہمارا بہت کم اختیار ہے۔ اس کے علاوہ، ان بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہم حقیقت پسندی سے بول سکتے ہیں کہ ان سب کی دیکھ بھال ہم نہیں کرسکتے ہیں۔ بہت سے بچے فی الحال ذہنی دباؤ کا شکار ہیں ، خاص کر اس وجہ سے کہ ان کے پاس قابل اعتماد معلومات تک رسائی بھی نہیں۔‘‘
Published: undefined
ایرانی حکام کے ذرائع سے ملنے والی معلومات ایک طویل عرصے سے متضاد اور ان بچوں کے حالات کی سنگینی کو بہت کم کر کے پیش کرنے والی ہیں۔ بحر حال وزارت مواصلات نے یہ ضرور کیا ہے کہ کم سے کم ایک کارڈ آن لائن شائع کیا ہے جس میں تہران کے شہریوں کو شہر کے مختلف حصوں میں انفیکشن کے خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: محمد تسلیم
تصویر: سوشل میڈیا