قومی خبریں

خواتین جب تک گھر میں رہیں گی، کامیابی حاصل نہیں کر سکتیں: اوشا چومار

اوشا چومار نے کہا کہ وہ جس مقام پر پہنچی ہیں اس کے پیچھے کئی لوگوں کا ہاتھ ہے، لیکن جب دل میں تہیہ کرلیا تو کامیابی حاصل ہوتی چلی گئی اور مرکزی حکومت کی جانب سے بھی انہیں پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا۔

اوشا چومار / Getty Images
اوشا چومار / Getty Images SOPA Images

الور: پدم شری سے سرفراز راجستھان کے الور کی رہنے والی اوشا چومار نے کہا کہ جب تک خواتین گھر میں رہیں گی، تب تک وہ کسی بھی کام میں کامیابی حاصلہ نہیں کر سکتیں۔ چومار نے 8 مارچ کو خواتین کے بین الاقوامی دن کے موقع پر یہاں کہا کہ اگر کامیاب بننا ہے تو گھر کی دہلیز عبور کرنی پڑے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی کام نہیں جسے خواتین نہیں کرسکتیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ جس مقام پر پہنچی ہیں اس کے پیچھے کئی لوگوں کا ہاتھ ہے، لیکن جب دل میں تہیہ کرلیا تو کامیابی حاصل ہوتی چلی گئی اور مرکزی حکومت کی جانب سے بھی انہیں پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا۔

Published: undefined

چومار نے بتایا کہ جب وہ 10 برس کی تھیں تو ان کی شادی کر دی گئی اور چار سال بعد 14 برس کی عمر میں رخصت کر دیا گیا تھا۔ بچپن سے ہی انہیں میلہ ڈھونے کا کام سکھایا جاتا تھا۔ شادی سے پہلے وہ اپنی ماں کے ساتھ میلہ ڈھونے جاتی تھیں۔ شادی کے بعد اپنی ساس کے ساتھ جانے لگی۔ جب میں اپنے مائیکے سے سسرال آئی تو سوچا کہ شاید یہاں پر میلہ ڈھونے کا کام نہ کرنا پڑے، لیکن یہاں بھی وہی صورتحال نظر آئی۔ حالات یہ تھے کے لوگ صبح نہا دھوکر جس طرح مندر جایا کرتے تھے اسی طرح ہم بیت الخلا کے مندر جایا کرتے تھے کیونکہ ہم یہ کام چھوڑ نہیں سکتے تھے اس لئے اپنے نصیب سے زیادہ کچھ سوچ نہیں سکتے اور نہ ہی کر پاتے تھے۔

Published: undefined

انہوں نے کہا کہ کچھ سال پہلے جب وہ میلہ ڈھونے کا کام کر رہی تھیں اسی دوران شہر کے جگن ناتھ مندر کے نزدیک سلبھ انٹرنیشنل ادارہ چلانے والے ڈاکٹر بندیشور پاٹھک ملے اور انہوں نے سب سے پہلے یہ سوال کیا کہ تم یہ میلہ ڈھونے کا کام کیوں کرتی ہو۔ یہ سوال ہم نے زندگی میں پہلی بار سنا تھا، اصل میں ہم یہ کام کیوں کرتے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں نسل در نسل میلہ ڈھونے کا کام ہوتا آ رہا تھا۔

Published: undefined

اس کے بعد وہ ہماری درخواست پر ہماری بستی میں آئے تو انہوں نے وہاں بھی یہی سوال کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں دلی سلبھ ادارے میں آنے کی دعوت دی۔ پہلے تو گھر والے منع کرنے لگے کیونکہ جن گھروں میں میلہ ڈھونے جاتے تھے وہاں پر دو تین دین کی چھٹی ہونا بھی ایک بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔

Published: undefined

اوشا چومر نے بتایا کہ اپنے شوہر کے کہنے پر وہ دہلی گئیں اور وہاں ہمارے ساتھ عام آدمی کی طرح سلوک کیا گیا۔ ذات پات اور مذہب کا کوئی فرق ظاہر نہیں ہوا۔ کیونکہ سلبھ ادارہ چلانے والے ایک برہمن تھے۔ اس کے بعد میں نے اپنے ذہن میں فیصلہ کیا کہ وہ اس ادارے سے جڑ کر میلہ ڈھونے کے رواج کو ختم کریں گی۔ اس کے بعد انہوں نے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور تنظیم میں شامل ہونے کے بعد، انہوں نے بہت سارے ممالک کا بھی سفر کیا۔

Published: undefined

اب سوال یہ پیدا ہوا کہ جب ہم نے میلہ ڈھونے کا کام بند کر دیا تو اب روزگار کا بحران پیدا ہوگیا۔ سلبھ ادارے کے بانی ڈاکٹر بندیشور پاٹھک نے ہم سے پوچھا کہ آپ کیا کام کرسکتے ہو اچار مونگوڈی یا دوسری چیزیں بناسکتے ہو تو وہ بناؤ۔ انہوں نے سب سے پہلے سوچا کہ ہمارے ہاتھ سے بنی چیزیں کون خریدے گا۔ ڈاکٹر بندیشور نے کہا آپ کے ذریعہ تیار کردہ سامان فروخت کرنے کا کام میرا ہے۔ اس کے بعد وہ اس کام میں شامل ہوگئیں اور آج الور میں ان کے سماج کی سیکڑوں خواتین اس کام میں شامل ہیں۔

Published: undefined

انہوں نے الور شہر کے عوام کا بھی شکریہ ادا کیا کہ آج ان کے ہاتھ کا تیار شدہ سامان بھی الور کے گھروں تک پہنچ رہا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے صفائی ستھرائی کا پیغام دیا اور اپنا مقصد مقرر کیا کہ ہر گھر میں بیت الخلاء ہونا چاہیے۔ اگر ہر گھر میں بیت الخلاء موجود ہو تو پھر ملک بھر سے میلہ ڈھونے کا رواج ختم ہو جائے گا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined