قومی خبریں

اترپردیش: محکمہ توانائی کی لاپرواہی کے سبب گزشتہ 3 سالوں میں 3606 لوگوں کی موت، کروڑوں روپے کا خسارہ

ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹریکل سیفٹی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مارچ 2023 سے 15 ستمبر 2025 تک محکمہ توانائی کی لاپراوہی کے سبب 11000 سے زائد حادثے ہوئے ہیں، جن میں 3606 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>بجلی / آئی اے این ایس</p></div>

بجلی / آئی اے این ایس

 

اترپردیش میں محکمہ توانائی کی لاپروہی نے انسانی زندگی اور ذریعہ معاش کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹریکل سیفٹی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مارچ 2023 سے 15 ستمبر 2025 تک محکمہ توانائی کی لاپراوہی کے سبب 11000 سے زائد حادثے ہوئے ہیں، جن میں 3606 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ ان میں 257 محکمہ کے ملازمین شامل ہیں۔ ان حادثوں کے بعد اتر پردیش پاور کارپوریشن لمیٹڈ (یو پی پی سی ایل) کو تقریباً 2 ارب روپے کا معاوضہ دینا پڑا۔

Published: undefined

سامنے آئی رپورٹ کے مطابق لو-ٹینشن (ایل ٹی) اور ہائی-ٹینشن لائنوں کے ٹوٹنے سے 3825 آتشزدگی کے واقعات پیش آئے ہیں، جن کی وجہ سے کروڑوں کا روپے کی فصلیں جل کر راکھ ہو گئیں۔ کرنٹ لگنے سے 3600 سے زائد مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں، جس کے لیے الگ سے معاوضے تقسیم کیے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف محکمہ کے کمزور بنیادی ڈھانچے کو بے نقاب کرتے ہیں، بلکہ محکمہ میں اصلاح کی فوری ضرورت کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔

Published: undefined

رپورٹ میں مطلع کیا گیا ہے کہ محکمہ توانائی کی لاپرواہی کے سبب ہوئے حادثات میں 3349 عام لوگوں کی موت ہوئی ہے، جبکہ 257 محکمہ کے ملازین کو بھی اپنی جان گنوانی پڑی ہے۔ یہ حادثے زیادہ تر پرانی وائرنگ، ٹوٹے کھمبے، آبی جماؤ میں گرے تاروں اور رکھ رکھاؤ میں کمی سے متعلق ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہوئے حادثات میں لکھنؤ کے حسین گنج، اسماعیل گنج اور عالم باغ علاقوں میں کرنٹ لگنے سے 3 لوگوں کی موت ہو گئی۔ اسی طرح تکروہی سے اسماعیل گنج کے درمیان برسات کے پانی میں کرنٹ پھیلنے سے 5 مویشی ہلاک ہو گئے۔

Published: undefined

ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹریکل سیفٹی کے ڈائریکٹر جی کے سنگھ نے بتایا کہ ’’ڈائریکٹوریٹ باقاعدگی سے گائیڈلائنز جاری کرتا ہے، سیمینار منعقد کرتا ہے اور انجینئر کو ٹریننگ دیتا ہے۔ ہر معائنہ میں سیفٹی پر زور دیا جاتا ہے، جس کا اثر یہ ہے کہ حادثات کے گراف دھیرے دھیرے کم ہو رہے ہیں، لیکن اب بھی صفر تک پہنچنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔‘‘

Published: undefined

گزشتہ چند سالوں کے دوران محکمہ بجلی کی لاپرواہی کے سبب ہونے والے حادثات کی بات کریں تو سال 2024-2023 میں کل 1747 واقعات پیش آئے، جن میں محکمہ کے 103 ملازمین اور 1269 عام افراد ہلاک ہوئے۔ 2025-2024 میں کل 1109 واقعات پیش آئے جس میں محکمہ کے 105 ملازمین اور 1289 عام لوگ جاں بحق ہوئے۔ ساتھ ہی گزشتہ 3 سالوں میں تقریباً 3600 مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار ’یو پی پی سی ایل‘ کے تحت مدھیانچل، پوروانچل، دکشنانچل، پسیمانچل ڈسکام، اور کیسکو سے لیے گئے ہیں۔ 23-2022 میں، 1428 اموات درج کی گئیں، جو اب تک کا سب سے بڑا اعداد و شمار ہے۔

Published: undefined

یو پی پی سی ایل کو ان اموات اور نقصانات کے لیے 2 ارب کی خطیر رقم بطور معاضہ دینا پڑا۔ اگر کسی انسان کی موت ہوئی ہے تو معاوضہ کے طور پر 5 لاکھ روپے متاثرہ شخص کے اہل خانہ کو دیا جاتا ہے۔ مویشیوں کی موت پر 20 ہزار سے 50 ہزار روپے تک بطور معاوضہ دیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی فصلوں کے نقصان پر ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹریکل سیفٹی کی تحقیقات اور اکاؤنٹنٹ کی رپورٹ کی بنیاد پر سرکاری طور پر تخمینہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد واقعات سے متاثرہ کسانوں کو محکمہ ریونیو کی مدد سے معاوضہ دیا جاتا ہے۔ محکمہ کے افسران کا کہنا ہے کہ یہ اخراجات نقصانات میں اضافہ کر رہے ہیں، جبکہ بجلی چوری اور بقایا رقم کی وصولی جیسے مسائل بوجھ میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔

Published: undefined

ماہرین کا کہنا ہے کہ پرانا انفراسٹرکچر، ناکافی دیکھ بھال اور معیارات سے ہٹ کر لگائی گئی لائنیں ان واقعات کی بڑی وجوہات ہیں۔ مسلسل ہو رہے واقعات سسٹم کی کمزوریوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ محکمہ کے افسران کا کہنا ہے کہ ’’ہم ہر سال ان واقعات کے گراف کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن کامیاب ہونے کے لیے محکم کو فول-پروف سیفٹی ڈیوائس کو اپنانے، لائنوں کو معیاری بنانے اور لوگوں میں بیداری لانے کی ضرورت ہے۔‘‘ ساتھ ہی ماہرین کا خیال ہے کہ ڈرون سروے، اسمارٹ میٹر اور باقاعدہ آڈٹ سے واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ یہ رپورٹ نہ صرف اعداد و شمار کا مجموعہ ہے بلکہ ایک انتباہ بھی ہے۔ اگر وقت رہے اصلاحی عمل نہیں کیے گئے تو ریاست کا بجلی نظام مزید مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined