قومی خبریں

بی جے پی رکن پارلیمنٹ ساوتری بائی پھولے نے بھی پارٹی کے خلاف محاذ کھولا

3 مہینے قبل بہرائچ سے ممبر پارلیمنٹ ساوتری بھائی پھولے نے ایس سی-ایس ٹی کو سرکاری ملازمتوں کے پرموشن میں ریزرویشن سے متعلق تحریک شروع کی تھی۔اپنے مطالبات کو لے کر کئی اضلاع میں ریلی کر چکی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا بہرائچ سے بی جے پی ممبر پارلیمنٹ ساوتری بائی پھولے

اتر پردیش کے بہرائچ سے بی جے پی ممبر پارلیمنٹ ساوتری بائی پھولے نے اپنی ہی حکومت کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔ انھوں نے مرکزی حکومت کی ایس سی/ایس ٹی پالیسیوں کے خلاف یکم اپریل کو لکھنؤ میں ریلی کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ ’نمو بدھائے جن سیوا سمیتی‘ کے ذریعہ اس ریلی کا انعقاد کیا جائے گا۔

Published: 28 Mar 2018, 2:48 PM IST

3 مہینے قبل بہرائچ سے ساوتری بائی پھولے نے ایس سی/ایس ٹی کو سرکاری ملازمت کے پرموشن میں ریزرویشن کے مطالبہ پر تحریک شروع کی تھی۔ اس کے تحت انھوں نے لکھنؤ، بجنور، قنوج اور کانپور سمیت مغربی اتر پردیش کے اضلاع میں ریلیاں بھی کیں۔

’قومی آواز‘ سے خاص بات چیت کرتے ہوئے پھولے نے کہا کہ ’’کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ ہم آئین بدلنے کے لیے اقتدار میں آئے ہیں، کبھی کہا جاتا ہے کہ ہماری حکومت ریزرویشن ختم کر دے گی یا آئین کے ذریعہ دیے گئے ریزرویشن کے حقوق کو اتنا کمزور کر دے گی کہ اس کا کوئی استعمال نہ بچے۔ اگر ریزرویشن اور آئین محفوظ نہیں ہیں تو بہوجن کے حقوق کیسے محفوظ رہیں گے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’’صرف میں ہی نہیں بلکہ اوما بھارتی، اُدت راج، انوپریا پٹیل، آر ایل ایس پی لیڈر اوپیندر کشواہا سمیت کئی اور لوگوں نے ایس سی/ایس ٹی قانون کو کمزور کرنے سے متعلق اپنی فکر کا اظہار کیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ بہوجن سماج کے سارے لوگوں کو آئین کو بچانے کے لیے آگے آنا چاہیے۔‘‘

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ان کی پارٹی ایس سی/ایس ٹی قانون پر آئے سپریم کورٹ کے فیصلے کا تجزیہ کے لیے عرضی دے گی؟ انھوں نے کہا کہ ’’آئینی ضابطوں کے تحت ایس سی/ایس ٹی طبقات کو کئی اختیارات دیےگئے ہیں اور ہم ان اختیارات کو بچانے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم کسی اور کا حق نہیں لے رہے ہیں۔ ہمارا حق کیوں چھینا جا رہا ہے؟ ہم جس کے پاس بھی جاتے ہیں ہمیں مایوسی ملتی ہے۔ کوئی ہمیں نہیں سنتا ہے۔‘‘

کیا انھوں نے اپنی پارٹی کے ساتھ یہ سارے ایشوز شیئر کیے ہیں؟ انھوں نے جواب میں کہا کہ ’’میں نے کئی بار ان ایشوز کو لوک سبھا میں اٹھایا ہے۔ پارٹی میری رائے جانتی ہے۔ ایس سی/ایس ٹی کو اتنا ظلم برداشت کرنا پڑتا ہے اور انھیں ابھی تک برابری کا درجہ نہیں ملا ہے۔ انھیں حکومت ملازمتوں، پرموشن اور یونیورسٹیوں میں ریزرویشن سے محروم کیا جاتا ہے۔‘‘

جب ان سے کہا گیا کہ پارٹی کے خلاف بولنے پر بی جے پی ان کے خلاف کارروائی بھی کر سکتی ہے، تو ساوتری نے کہا کہ ’’ہمارے لیے، میرے حقوق کے لیے کون لڑے گا اگر میں ان کے لیے نہیں لڑوں گی۔ کیا اپنے حقوق کے لیے لڑنا جرم ہے؟ کیا ریزرویشن کے اپنے حق کے لیے لڑنے پر مجھ پر پابندی عائد کر دی جائے گی؟ جمہوریت میں ہم اپنے حقوق کے لیے لڑ سکتے ہیں۔ میرے خلاف کی گئی کوئی بھی کارروائی آئین کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘‘

انھوں نے ریزرویشن کے ایشو پر اس سے پہلے کہا تھا کہ ’’میں صرف مظلوم، دلت، پسماندہ اور اقلیتوں کو ان کا حق دلانا چاہتی ہوں۔ میں نے ایوان میں بھی آواز اٹھائی تھی، لیکن ریزرویشن کے خلاف سازش کی جا رہی ہے۔ اسے بچانے کے لیے میں نے تحریک کی شروعات کی ہے۔‘‘

سپریم کورٹ نے 20 مارچ کو اپنے فیصلے میں ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت ہونے والی فوری گرفتاری پر روک لگا دی ہے۔ مہاراشٹر کی ایک عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اس ایکٹ کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ اس فیصلے کے بعد بی جے پی میں مخالفانہ آوازیں بھی اٹھنے لگی ہیں۔ بی جے پی کے شمال مغربی دہلی سے لوک سبھا ممبر پارلیمنٹ اور آل انڈیا کنفیڈریشن فار ایس سی-ایس ٹی کے سربراہ اُدت راج ایس سی/ایس ٹی قانون پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے فکر مند ہیں۔ کچھ دنوں پہلے ’قومی آواز‘ کے ساتھ بات چیت میں انھوں نے کہا تھا کہ مرکزی حکومت کو اس سلسلے میں فوری طور پر ایک جائزہ عرضی داخل کرنی چاہیے یا پھر پارلیمنٹ میں اس سلسلے میں ایک بل لانا چاہیے۔

بی جے پی کے ایس ٹی مورچہ کے سربراہ اروند نیتام نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف ایک جائزہ عرضی داخل کرے۔ مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے بھی جلد ہی عرضی داخل کرنے کے لیے مرکزی حکومت سے گزارش کی تھی۔ انھوں نے اس فیصلے کے آنے کے بعد کہا تھا کہ ’’سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ایس سی اور ایس ٹی میں بہت زیادہ ناراضگی ہے اور حکومت کو جلد از سر نو غور کرنے کی عرضی داخل کرنی چاہیے۔‘‘

گزشتہ سال کی نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2016 میں شیدولڈ کاسٹ کے خلاف مجرمانہ معاملوں میں 2015 کے مقابلے 5.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ 2016 میں کل 40801 معاملے درج ہوئے ہیں جب کہ 2015 میں یہ اعداد و شمار 38670 تک ہی تھی۔

Published: 28 Mar 2018, 2:48 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 28 Mar 2018, 2:48 PM IST