قومی خبریں

محبوبہ مفتی کو اب عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہیے: سیف الدین سوز

کانگریس کے سینئر لیڈر سیف الدین سوز نے جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک پر سیاسی اشاروں کے تحت ریاستی اسمبلی تحلیل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی کوعدالت جانے کا مشورہ دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

جموں و کشمیر کی سیاست میں ہنگامہ برپا ہے اور جب سے ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم صادر کیا ہے، سیاسی حلقے میں چہ می گوئیاں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ حالات کے پیش نظر کانگریس کے سینئر لیڈر سیف الدین سوز نے پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی کو عدالت جانے کا مشورہ تک دے دیا ہے۔ دراصل اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ ستیہ پال ملک نے ایسے وقت میں لیا ہے جب پی ڈی پی نے کچھ پارٹیوں کی مدد سے حکومت سازی کا دعویٰ گورنر ہاؤس کے سامنے پیش کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر جیسے ہی یہ خبر پھیلی کہ پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس مل کر جموں و کشمیر میں حکومت سازی کے لیے قدم بڑھا چکے ہیں، اچانک اسمبلی تحلیل کرنے کی خبر بھی جاری کر دی گئی۔

اس پورے واقعہ کے بعد پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس سبھی نے حیرانی ظاہر کی اور کہا کہ کئی مہینوں سے اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے کہا جا رہا تھا تو گورنر نے ایسا نہیں کیا اور جب حکومت تشکیل دینے کے لیے ماحول بننے لگا تو بی جے پی کو یہ قبول نہیں ہوا۔ کانگریس کے سینئر لیڈر سیف الدین سوز نے اس سلسلے میں میڈیا سے کہا کہ ’’جو کچھ ہوا ہے اس پر پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔‘‘ ساتھ ہی انھوں نے الزام عائد کیا کہ گورنر نے سیاسی اشاروں پر ریاستی اسمبلی کو تحلیل کیا ہے۔

Published: undefined

قابل ذکر ہے کہ پہلے تو پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے مل کر حکومت سازی کا دعویٰ پیش کیا اور پھر بی جے پی کی حمایت یافتہ پیپلز کانفرنس کے لیڈر سجاد لون نے بھی حکومت بنانے کا دعویٰ کر دیا۔ اس کے بعد گورنر ستیہ پال ملک نے ایک مختصر بیان میں اعلان کر دیا کہ وہ جموں و کشمیر کے آئین سے ملے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کو تحلیل کر رہے ہیں جس کی مدت کار ابھی دو سال باقی تھی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined