قومی خبریں

گوری لنکیش کے قتل میں سخت گیر ہندو تنظیم ’سناتن سنستھا‘ کا ہاتھ!

ایس آئی ٹی نے سخت گیر ہندو تنظیم ’سناتن سنستھا‘ سے منسلک پانچ لوگوں کو مشتبہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جلد اس سلسلے میں کارروائی کی جائے گی

Getty Images
Getty Images 

سینئر صحافی اور سماجی کارکن گوری لنکیش کے قتل کی جانچ کر رہی تحقیقاتی ٹیم ایس آئی ٹی نے سخت گیر ہندو تنظیم ’سناتن سنستھا‘ سے منسلک پانچ لوگوں کو مشتبہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جلد اس سلسلے میں کارروائی کی جائے گی۔ ایس آئی ٹی کے مطابق کولہاپور کے پروین لمکر، منگلور کے جے پرکاش عرف اَنّا، پونے کے سارنگ اکولکر، ساتارا کے ونے پوار اور سانگلی کے رودر پاٹل وہ نام ہیں جن کے خلاف کچھ ثبوت ہاتھ لگے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ان پانچوں ناموں میں سے چار کے خلاف 2009 کے مڈگاؤں بم دھماکہ میں شامل ہونے کا الزام بھی عائد کیا جا چکا ہے۔ انٹرپول نے بھی ان کے خلاف ’ریڈ کارنر نوٹس‘ جاری کر رکھا ہے۔

رودر پاٹل، سارنگ اکولکر اور ونے پوار کے سلسلے میں بتایا جاتا ہے کہ 2013 میں مہاراشٹر کے کولہاپور میں نریندر دابھولکر قتل معاملے میں سی بی آئی تحقیقات میں بھی ان کا نام آ چکا ہے۔ اتنا ہی نہیں، اس کے علاوہ 2015 میں ہوئے لیفٹ تھنکر اور دانشور ہستی گووند پنسارے کے قتل معاملے میں مہاراشٹر ایس آئی ٹی کی جانچ میں اور 2015 میں ہوئے کرناٹک کے دھارواڑ میں کنڑ دانشور اور محقق ایم ایم کلبرگی کے قتل کی جانچ میں بھی ان کا نام آ چکا ہے۔ گویا کہ جن لوگوں کا نام گوری لنکیش کے قتل میں سامنے آیا ہے وہ پہلے بھی مجرمانہ کارروائیوں میں مشتبہ رہے ہیں۔ چونکہ تحقیق میں گوری لنکیش اور کلبرگی دونوں کا قتل 7.65 ایم ایم کے پستول سے کیے جانے کی بات سامنے آئی ہے اس لیے ان سازشوں کے پیچھے ایک ہی دماغ کے ہونے کا امکان پہلے ہی ظاہر کیا جا چکا ہے۔

واضح رہے کہ گوری لنکیش قتل معاملہ میں ایس آئی ٹی نے ’سناتن سنستھا‘ کے کئی لوگوں سے پوچھ تاچھ ہوئی۔ اس قتل کی جانچ کر رہے ایک افسر نے پہلے بتایا بھی تھا کہ شروعاتی جانچ میں کچھ ایسی باتیں سامنے آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لنکیش اور کلبرگی کے قتل میں ایک ہی تنظیم کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ اب جب کہ ’سناتن سنستھا‘ سے منسلک لوگوں کے خلاف ایس آئی ٹی کو کچھ ثبوت ہاتھ لگ گئے ہیں تو ہندوتوا ذہنیت کی علمبردار یہ تنظیم کٹہرے میں نظر آ رہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined