
علامتی تصویر
مہاراشٹر میں کسانوں کی حالت زار کی دل دہلا دینے والی تصویر سامنے آئی ہے۔ چندر پور ضلع کے ناگبھیڑ تعلقہ کے منتھور گاؤں میں قرض کے بوجھ تلے دبے ایک نوجوان کسان کو ساہوکاروں کا قرض ادا کرنے کے لیے کمبوڈیا جاکراپنی کڈنی بیچنے پرمجبور ہونا پڑا۔ یہ معاملہ نہ صرف غیر قانونی ساہو کاروں کے استحصال کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ غریب کسانوں کی مجبوری کو بھی سامنے لاتا ہے۔
Published: undefined
خبر کے مطابق متاثرہ کسان روشن سداشیو کوڈے نے چند سال قبل ساہوکاروں سے ایک لاکھ روپے ادھار لیے تاکہ دودھ کا کاروبار شروع کرسکے۔ حد سے زیادہ سود کی وجہ سے یہ قرض بڑھ کر 74 لاکھ روپے ہوگیا۔ کاروبار میں نقصان، مویشیوں کی موت اور فصلوں کے خراب ہونے سے اس کی حالت مزید خراب ہوتی چلی گئی۔ قرض ادا کرنے کے لیے اس نے دو ایکڑ زمین اور گھرکا قیمتی سامان بھی بیچ دیا لیکن ساہوکاروں کا دباؤ ختم نہیں ہوا۔
Published: undefined
روشن کوڈے نے الزام لگایا کہ ساہوکاروں نے اس پر پورا قرض ادا کرنے کے لیے کڈنی بیچنے کا دباؤ بنایا۔ اس کے بعد وہ کولکتہ گیا اور وہاں سے کمبوڈیا لے جایا گیا۔ کمبوڈیا میں اس نے تقریباً 8 لاکھ روپے میں اپنی کڈنی فروخت کردی۔ کسان کا کہنا ہے کہ اس نے یہ قدم مجبوری میں اٹھایا کیونکہ ساہوکاراسے مسلسل دھمکیاں دے رہے تھے اوراس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔
Published: undefined
روشن کوڈے نے پولیس میں شکایت درج کرائی ہے جس میں اس نے برہم پور کے ساہوکار کشور باونکولے، منیش کلبندے، لکشمن ارکوڈے، پردیپ باونکولے، سنجے بلارپورے اور لکشمن بورکر کے نام لئے ہیں۔ کسان نے الزام لگایا ہے کہ ان لوگوں نے اسے کڈنی بیچنے کے لیے مجبور کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پورے معاملے کی سنجیدگی سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
کسان نے وارننگ دی ہے کہ اگر اسے انصاف نہیں ملا تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ ریاستی سیکرٹریٹ کے سامنے خودکشی کر لے گا۔ اس واقعے کے بعد سیاسی ردعمل میں بھی شدت آ گئی ہے۔ کسان لیڈر راجو شیٹی نے کہا کہ وزیر اعلی دیویندر فڑنویس کو اس پورے معاملے کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ وہیں این سی پی (ایس پی) کے ایم ایل اے روہت پوار نے ساہوکاروں کے خلاف سخت کارروائی اور کسانوں کا قرض فوری معافی کا مطالبہ کیا ہے۔
Published: undefined
یہ واقعہ مہاراشٹر میں کسانوں پر بڑھتے قرض اورغیر قانونی ساہوں کاری کی بھیانک سچائی کو اجاگر کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کب تک کسان ایسے حالات میں اپنی زمین، گھراور پھر اپنا جسم بیچنے کو مجبور ہوتا رہے گا۔ یہ معاملہ صرف ایک کسان کا نہیں ہے بلکہ پورے نظام پر سوال اٹھاتا ہے، جہاں بروقت امداد نہ ملنے کی وجہ سے کسان کو زندگی اور موت کے درمیان ایسا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔
Published: undefined