قومی خبریں

حکومت کی قائم کردہ ’ایم ایس پی کمیٹی‘ کو کسان لیڈران نے قرار دیا تماشہ! جانیں کیوں کیا بائیکاٹ کا اعلان؟

کسان سنگھرش سمیتی کے جنرل سکریٹری حنان ملا نے حکومت کے ساتھ ایم ایس پی پر کسی بھی بحث کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمیٹی ’تماشا‘ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

کسان لیڈر حنان ملا
کسان لیڈر حنان ملا 

مودی حکومت کی طرف سے ایم ایس پی (منیمم سپورٹ پرائس) پر کمیٹی قائم کئے جانے کے ایک دن بعد 40 سے زیادہ کسان یونینوں کی نمائندہ تنظیم سنیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے کمیٹی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ ایس کے ایم کا کہنا ہے کہ حکومت کا ایم ایس پی پر کمیٹی قائم کرنا تماشہ کے اور کچھ نہیں! ایس کے ایم نے منگل کے روز ایک طویل میٹنگ کے بعد بیان جاری کرتے ہوئے کہا "مورچہ نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ جب تک حکومت اس کمیٹی کے دائرہ اختیار اور شرائط کو واضح نہیں کرتی، اس وقت تک کسی سنیوکت کسان مورچہ کا اس کمیٹی کے لئے کسی نمائندے کو نامزد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘

Published: undefined

کسان سنگھرش سمیتی کے جنرل سکریٹری حنان ملا جو حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں شامل تھے، نے حکومت کے ساتھ ایم ایس پی پر کسی بھی بحث کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کمیٹی ’تماشا‘ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ایس کے ایم نے کمیٹی میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیوں کیا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے حنان ملا نے کہا کہ یہ فیصلہ ملک کے مختلف حصوں میں سرگرم کئی کسان لیڈروں، بڑی اور چھوٹی یونینوں سے بات کرنے کے بعد اجتماعی طور پر لیا گیا ہے۔

Published: undefined

مودی حکومت کی طرف سے اس وقت کمیٹی قائم کرنے کو دہلی کے مبصرین گجرات، راجستھان، تلنگانہ میں کسان برادری تک پہنچنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں، جہاں اگلے سال اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ لوک سبھا کے سابق رکن حنان ملا نے نے متعدد مسائل بیان کئے جن کی وجہ سے کسان لیڈران ایم ایس پی پر کمیٹی کو مسترد کرنے پر مجبور ہوئے۔ قابل ذکر بات ہے کہ حکومت نے ایم ایس پی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ بنگال کے سابق گورنر جگدیپ دھنکڑ کو این ڈی اے کا نائب صدر عہدے کا امیدوار مقرر کیا ہے۔ دھنکڑ کا تعلق راجستھان کے جھنجھنو ضلع سے ہے اور وہ ایک کسان خاندان سے آتے ہیں۔

Published: undefined

ایم ایس پی کمیٹی پر بات کرتے ہوئے حنان ملا نے کہا:

  • کمیٹی کا کوئی تقدس نہیں ہے۔

  • کمیٹی کی طرف سے پیش کردہ سفارشات قانونی طور پر پابند نہیں ہوں گی۔

  • قائم کردہ کمیٹی کے ایجنڈے میں ایم ایس پی شامل ہی نہیں ہے۔

  • سوامی ناتھن رپورٹ کے نفاذ پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔

  • نیز، کمیٹی میں شامل فرضی کسان لیڈران زراعت کے شعبے میں آر ایس ایس کے حامی اور کارپوریٹ حامی موقف کے لیے جانے جاتے ہیں۔

  • سابق زراعت سکریٹری سنجے اگروال کو کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر تقرری سے کسانوں میں کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

Published: undefined

کسانوں کی ایک سال تک چلنے والی تحریک کے دوران سنجے اگروال کے کسان مخالف موقف کو اجاگر کرتے ہوئے حنان ملا نے کہا کہ کسان اس شخص پر کیسے اعتماد کر سکتے ہیں جس نے ہماری تحریک کو بدنام کیا اور زرعی بل کا مسودہ تیار کیا! سنجے اگروال پر جھوٹ پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے ملا نے کہا کہ "جب حکومت نے مارچ میں کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو ہم نے حکومت کو لکھا کہ کمیٹی کے دائرہ اختیار اور شرائط کو واضح کیا جائے لیکن حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر بھی اگروال کہہ رہے ہیں کہ کمیٹی کی تشکیل ایس کے ایم کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوئی۔

Published: undefined

حنان ملا نے پوچھا کہ آخر کسان ان باتوں کا کیا مطلب نکالیں جو خود کمیٹی کے چیئرمین کی جانب سے کی جا رہی ہیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی میں پانچ نام نہاد کسان لیڈران شامل ہیں جو کسان مخالف اور صنعت کاروں کے حامی ہیں۔ نظریاتی طور پر وہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے حامی ہیں۔ پنجاب کی کرانتی کاری کسان یونین کے ڈاکٹر درشن پال نے کہا کہ دراصل حکومت کسانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کمیٹی تشکیل دے کر حکومت ان مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتی ہے جو اس وقت کسانوں کو درپیش ہیں۔

Published: undefined

وہیں بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) کے لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا ’’بی کے یو کا کوئی بھی نمائندہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ایم ایس پی گارنٹی قانون پارلیمنٹ سے پاس کیا جانا چاہئے۔ ٹکیت نے بہار کے کھگڑیا میں ایک پریس کانفرنس سے کہا کہ کمیٹی ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے 2020 میں مودی حکومت کی جانب سے منظور کئے گئے زرعی قوانین کی وکالت کی تھی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined