قومی خبریں

جی ایس ٹی ریفارم، شور زیادہ منافع کم

جی ایس ٹی ریفارم، شور زیادہ منافع کم

Getty Images
Getty Images 

نئی دہلی: جی ایس ٹی کے نام پر سرکاری خزانہ میں جمع ہوئے 95 ہزار کروڑ کا دعویٰ بہت جلد غلط ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر حکومت اس میں جی ایس ٹی نافذ ہونے سے پہلے کمپنیوں سے وصول کیے گئے الگ الگ ٹیکس کو ہٹا دے تو یہ رقم محض 30 ہزار کروڑ ہی ہوگا۔ اس طرح جی ایس ٹی کی کامیابی کا دعویٰ نہ صرف کھوکھلا ثابت ہوتا نظر آ رہا ہے بلکہ یہ سوال بھی کھڑا ہو رہا ہے کہ آخر حکومت نے اس رقم کو تین گنا کیوں بتایا؟

سرکاری خزانے میں کل جمع 30 ہزار کروڑ کی رقم مزید کم ہو سکتی ہے کیونکہ جولائی میں ابھی تک صرف 70 فیصد ریٹرن فائل ہوئی ہیں اور زیادہ تر بڑی کمپنیوں نے جی ایس ٹی سے پہلے ادا کیے گئے ٹیکس کے کریڈٹ کا دعویٰ ابھی نہیں کیا ہے۔ دراصل جی ایس ٹی کا پہلا ریٹرن داخل کرنے کے ساتھ ہی تمام کمپنیوں نے جی ایس ٹی نظام میں جانے سے قبل ادا کیے گئے ٹیکس کی واپسی کا دعویٰ بھی کیا ہے اور یہ رقم تقریباً 65 ہزار کروڑ ہے۔ جی ایس ٹی سے بھرے خزانے میں کمی ہوتے دیکھ کر حکومت پریشان ہو رہی ہے اور اس نے ایسی سبھی کمپنیوں کے ریٹرن کی جانچ کرنے کا حکم جاری کیا ہے جنھوں نے ایک کروڑ یا اس سے زیادہ کے کریڈٹ کا دعویٰ کیا ہے۔

Published: undefined

سنٹرل بورڈ آف ایکسائز اینڈ کسٹمز (سی بی سی ای) نے سبھی ٹیکس کمشنروں کو سرکلر بھیج کر ایک کروڑ سے زیادہ ٹیکس کریڈٹ کا دعویٰ کرنے والی کمپنیوں کی جانچ کرنے کی ہدایت دی ہے۔ دراصل یکم جولائی سے نافذ العمل جی ایس ٹی کے تحت کمپنیوں کو پرانے ٹیکس نظام میں کیے گئے اسٹاک کی خرید پر ادا کیے گئے ٹیکس کریڈٹ کا دعویٰ کرنے کی سہولت دی گئی تھی۔ یہ سہولت صرف چھ مہینے تک کے لیے ہی ہے۔

مذکورہ سہولت کے تحت کمپنیوں اور کاروباری اداروں کو اپنی ریٹرن کے ساتھ فارمTRAN-1 بھی بھرنے کی سہولت دی گئی ہے جس میں جی ایس ٹی نظام سے قبل کی گئی خرید پر ادا کیے گئے ٹیکس کے کریڈٹ کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ سی بی ای سی نے جب موصول سبھی TRAN-1 فارموں کو دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ اس فارم میں کمپنیوں نے ایکسائز، سروس ٹیکس اور ویٹ کے تحت 65 ہزار کروڑ کا دعویٰ کیا ہے۔ اس کے بعد گیارہ ستمبر کو سی بی ای سی کے بورڈ ممبر مہندر سنگھ کی جانب سے سبھی چیف کمشنروں کو خط بھیج کر دعویٰ کرنے والی کمپنیوں کی جانچ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ خط میں ایک کروڑ یا اس سے زیادہ کا دعویٰ کرنے والی کمپنیوں کی تعداد 162 بتائی گئی ہے۔ اب ٹیکس کمشنر ان کمپنیوں کے دعوؤں کی جانچ کرنے کے بعد طے کریں گے کہ یہ دعوے درست ہیں یا نہیں۔

خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جی ایس ٹی نظام نافذ ہونے کے بعد پرانے ٹیکس کا کریڈٹ اسی صورت میں دیا جائے جب یہ قانون کے تحت قابل قبول ہو۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کمپنیوں نے غلطی سے یا غلط فہمی میں ایسے دعوے کر دیے ہوں۔ یعنی حکومت مانتی ہے کہ غالباً نہ تو کمپنیاں اور نہ ہی ٹیکس افسران جی ایس نظام کو ٹھیک سے سمجھ پائے ہیں۔ خط میں کریڈٹ کے دعوؤں کی طے مدت میں جانچ کرنے کو کہا گیا ہے اور 20 ستمبر تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

سی بی ای سی نے کہا ہے کہ جی ایس ٹی کے تحت صرف درست دعوؤں کو ہی آگے بڑھایا جائے اور ان کی حقیقت کا پتہ کرنے کے لیے فیلڈ آفیسر نئے داخل ریٹرن کو پرانے ریٹرن سے ملائیں، اور یہ بھی دیکھیں کہ یہ دعوے جی ایس ٹی قانون کے تحت قابل قبول ہیں یا نہیں۔

حکومت کی جانب سے گزشتہ ہفتہ کہا گیا تھا کہ جی ایس ٹی نظام کے تحت 70 فیصد کمپنیوں اور کاروباری اداروں نے جولائی کا ریٹرن داخل کر دیا ہے۔ اس سے حکومت کو 95 ہزار کروڑ حاصل ہوا ہے اور ٹیکس دہندگان کی مجموعی تعداد تقریباً 60 لاکھ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ ہفتہ کل 59.97 لاکھ ٹیکس دہندگان میں سے 70 فیصد نے جولائی کا ریٹرن داخل کر دیا تھا۔ اس سے حکومت کو جی ایس ٹی کے تحت 95 ہزار کروڑ کا خزانہ حاصل ہوا ہے۔

Published: undefined

حکومت نے اگست کو آخری دنوں میں فارم TRAN-1 جاری کیا تھا جس میں کمپنیوں اور کاروباری اداروں کو پہلے خریدے گئے اسٹاک پر ٹیکس کریڈٹ کا دعویٰ کرنا تھا۔ ٹریڈرس اور ریٹیلرس کو اس کے تحت دعویٰ کرنے کے لیے 90 دن کا وقت دیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ چھوٹ بھی تھی کہ 31 اکتوبر تک اس دعوے کو ایک بار بدلا بھی جا سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 65 ہزار کروڑ روپے کا دعویٰ بہت بڑا ہے، خصوصاً ایسے حالات میں جب کہ بڑی کمپنیوں نے ابھی تک دعوے کے لیے فارم TRAN-1 جمع ہی نہیں کرایا ہے۔

حکومت کے اس نظام کے تحت ٹریڈرس اور ریٹیلرس کو یہ سہولت دی گئی تھی کہ جی ایس ٹی نظام سے قبل ادا کیے گئے ایسے ٹیکس جن کی شرح 18 فیصد سے زیادہ تھی اُس کا 60 فیصد سی جی ایس ٹی (سنٹرل جی ایس ٹی) یا ایس جی ایس ٹی (اسٹیٹ جی ایس ٹی) میں کریڈٹ دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ سہولت دی گئی تھی کہ ایسے ٹیکس جن کی شرح 18 فیصد سے کم تھی، اس کا 40 فیصد تک کریڈٹ کے دعوے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ نظام بھی تھا کہ حکومت ایسے سبھی سامان پر صد فیصد ایکسائز ڈیوٹی واپس کر دے گی جس کی قیمت 25 ہزار یا زیادہ ہے اور وہ کسی برانڈ اور سیریل نمبر والے سامان ہیں۔ ان میں ٹی وی، فریج اور کار کے چیسس وغیرہ آتے ہیں۔

جی ایس ٹی کو نافذ ہوئے ڈھائی مہینے کی مدت گزر چکی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے 30 جون کی نصف رات کو حکومت کے ذریعہ چھوڑا گیا ’ٹرسٹ وِتھ جی ایس ٹی ڈیسٹنی‘ کا شگوفہ بے معنی ہو گیا ہے۔ مشکل اور غیر واضح قوانین کے جال میں پھنسا جی ایس ٹی ابھی تک کاروباریوں، کمپنیوں اور کاروباریوں کے لیے مصیبت ہی ثابت ہوا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اب حکومت خود بھی اس میں الجھی ہوئی نظر آنے لگی ہے۔

اگست کی آمد سے قبل ہی حکومت نے جس طرح جی ایس ٹی ریٹرن داخل کرنے کی تاریخ آگے بڑھائی، اس سے واضح ہو گیا کہ حکومت کا یہ دیرنہ ٹیکس اصلاح پروگرام دیوار سے سر ٹکرا رہا ہے۔ اس کی ایک جھلک گزشتہ ہفتہ حیدر آباد میں ہوئی جی ایس ٹی کاؤنسل کی اکیسویں میٹنگ میں بھی دیکھنے کو ملی۔ خبریں تو یہ بھی مل رہی ہیں کہ سرکاری خزانہ کے تئیں کئی ریاستی حکومتیں فکر مند ہیں۔ سرکاری حکومتوں نے جی ایس ٹی این کی ناکامی پر جی ایس ٹی نافذ کرانے والی کمیٹی کو خوب برا بھلا کہا اور اس سلسلے میں وہائٹ پیپر لانے کی بات بھی کہی۔ یہی سبب تھا کہ فوراً ہی جی ایس ٹی کاؤنسل نے بہار کے نائب وزیر اعلیٰ سشیل مودی کی صدارت میں ایک وزراء سطح کی کمیٹی بنا دی۔ یہ کمیٹی جی ایس ٹی این کی کارگزاری پر اپنی نظر رکھے گی۔

جی ایس ٹی کے تئیں صرف یہی پریشانی نہیں ہے، مسئلہ یہ بھی ہے کہ جی ایس ٹی کے تحت ٹیکس کی شرح میں لگاتار تبدیلی ہو رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جی ایس ٹی کی گاڑی پٹری سے اتری ہوئی معلوم پڑ رہی ہے۔ جی ایس ٹی سے ٹیکس چوری پر کنٹرول کا جو دعویٰ کیا جا رہا تھا وہ بھی غلط ثابت ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ایک تو ریٹرن فائل کرنے اور ٹیکس شرحوں میں تبدیلی کے سبب اب افسران کو ٹیکس کریڈٹ کے دعوؤں اور ریٹرن کی باریکیوں کو سمجھنا تقریباً ناممکن سا ہو گیا ہے۔ دوسرا یہ کہ شرحوں کی پیچیدگی اور بار بار پریشان کرنے والے جی ایس ٹی این (گڈس اینڈ سروس ٹیکس نیٹورک) نے ’ایز آف ڈوئنگ بزنس‘ کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ پرانے اور جی ایس ٹی سے ٹکراؤ کے دور کا اثر براہ راست معاشی سرگرمیوں پر پڑے گا جس سے جی ڈی پی کی شرح متاثر ہوگی۔ ایک اور پریشانی یہ ہے کہ کسی بھی ٹیکس دہندہ کے لیے جی ایس ٹی کے تحت اتنی زیادہ خانہ پری کر دی گئی ہے کہ کاروبار کرنا ہی مصیبت بن گیا ہے۔

(ایجنسیوں سے اِن پٹ کے ساتھ)

Published: undefined

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined