قومی خبریں

’کیا اڈانی ہندوستان ہے؟‘ ہنڈن برگ کی رپورٹ کو ہندوستان مخالف بتائے جانے پر بھوپیش بگھیل کا سوال

وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کا کہنا ہے کہ ’’پہلے جب ہم بی جے پی کے خلاف بولتے تھے تو ہندو مخالف ہو جاتے تھے، جب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف بولتے تھے تو غدارِ وطن ہو جاتے تھے، اور اب...‘‘

بھوپیش بگھیل، تصویر یو این آئی
بھوپیش بگھیل، تصویر یو این آئی Prem Singh

ہنڈن برگ کی رپورٹ میں ہوئے انکشاف سے اڈانی گروپ کو زوردار جھٹکا لگا ہے۔ اس گروپ کی سبھی کمپنیوں کے شیئر گرتے جا رہے ہیں۔ گزشتہ 7 دنوں کے اندر گوتم اڈانی دنیا کے 10 سب سے امیر لوگوں کی فہرست سے بھی غائب ہو گئے ہیں۔ اس درمیان اپوزیشن پارٹیاں اب اس معاملے کی جانچ کا مطالبہ زور و شور سے کر رہی ہیں۔ پارلیمنٹ میں بھی اس رپورٹ کی گونج سنائی دی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے جے پی سی کی تشکیل پر اس معاملے کی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ وہ ہندوستانی بینکوں کے لیے قرض اور سرمایہ کاروں کے پیسے ڈوبنے کا اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے بھی اڈانی گروپ اور مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

Published: undefined

میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بگھیل نے کہا کہ ’’پہلے جب ہم بی جے پی کے خلاف بولتے تھے تو ہندو مخالف ہو جاتے تھے، جب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف بولتے تھے تو غدارِ وطن ہو جاتے تھے، اب اس (ہنڈن برگ) رپورٹ کے خلاف بولنے پر وہ کہتے ہیں یہ ہندوستان مخالف ہے۔‘‘ پھر بگھیل نے سوال کیا کہ ’’تو ہندوستان کون ہے؟ کیا اڈانی ہندوستان ہے؟‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’مجھے اندیشہ ہے کہ ہم جو این پی ایس کا پیسہ مانگ رہے تھے، لگتا ہے وہ پیسے اسی میں لگائے گئے ہیں۔ ایک رپورٹ کی وجہ سے شیئر مارکیٹ دھڑام سے گر گیا ہے۔ اتنا ہونے کے باوجود ایل آئی سی اور ایس بی آئی کا پیسہ اس میں ڈالا جا رہا ہے جو فکر کا موضوع ہے۔‘‘

Published: undefined

واضح رہے کہ ہنڈن برگ کی رپورٹ آنے کے بعد سے اڈانی گروپ کی مشکلات لگاتار بڑھتی جا رہی ہیں۔ خبروں کے مطابق ان سب کے درمیان ریزرو بینک آف انڈیا نے سبھی بینکوں سے پوچھا ہے کہ اڈانی گروپ میں ان کے کتنے پیسے لگے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آر بی آئی نے بینکوں سے اڈانی گروپ کی کمپنیوں، سرکاری اور بینکنگ ذرائع کے لیے اپنے جوکھم کی تفصیلات دینے کے لیے کہا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined