مہاراشٹر میں مجلس اتحاد المسلمین کو داخلی بغاوت کا سامنا، ریاستی صدر امتیاز جلیل پر ٹکٹ فروشی کا سنگین الزام عائد

امتیاز جلیل نے کہا کہ جب ایک امیدوار کو ٹکٹ دیا جاتا ہے تو باقی خواہشمند افراد میں ناراضگی کا پیدا ہونا فطری ہے۔ کچھ لوگ فیصلے کو قبول کر لیتے ہیں اور کچھ افراد الزام تراشی اور تہمتیں عائد کرتے ہیں۔

اسدالدین اویسی / ویڈیو گریب
i
user

محی الدین التمش

اورنگ آباد/ممبئی: مہاراشٹر میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) اس وقت شدید داخلی بحران سے گذر رہی ہے۔ پارٹی کے ریاستی صدر اور سابق رکن پارلیمنٹ امتیاز جلیل کے خلاف کھل کر بغاوت سامنے آ گئی ہے۔ اورنگ آباد (چھترپتی سمبھاجی نگر) میونسپل کارپوریشن انتخابات اور ممبئی کے بلدیاتی سیاسی منظرنامے میں پارٹی کے اندرونی اختلافات نے سنگین صورت حال اختیار کر لی ہے۔

پارٹی کے ناراض لیڈران کا الزام ہے کہ اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن انتخاب کے دوران ٹکٹوں کی تقسیم میں شفافیت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ ریاستی صدر امتیاز جلیل پر براہ راست الزام عائد کیا جارہا ہے کہ ٹکٹ ’قابلیت اور کارکردگی‘ کی بنیاد پر دینے کے بجائے مبینہ طور پر فروخت کیا گیا۔ الزام یہ بھی عائد کیا جا رہا ہے کہ انھوں نے سینئر و سرگرم لیڈران کو نظرانداز کر کے اپنے قریبی اور وفادار افراد کو ٹکٹ سے نوازا ہے۔


اورنگ آباد میں پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق اسمبلی امیدوار ناصر صدیقی اور دیگر پارٹی کارکنان نے امتیاز جلیل پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے وفادار اور پرانے کارکنان کو نظر انداز کر کے مبینہ طور پر 12 سے 15 لاکھ روپئے میں ٹکٹ فروخت کئے ہیں۔ مشتعل کارکنان نے اورنگ آباد میں احتجاج کرتے ہوئے امتیاز جلیل کی تصاویر کو پھاڑا اور پیروں تلے روند کر نعرے بازی کی کہ ’’ہم اسدالدین اویسی کے ساتھ ہیں لیکن امتیاز جلیل کی قیادت منظور نہیں۔‘‘ ناصر صدیقی نے امتیاز جلیل کو مہاراشٹر کی صدارت کے عہدے سے برخاست کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

مہاراشٹر میں مجلس اتحاد المسلمین کو داخلی بغاوت کا سامنا، ریاستی صدر امتیاز جلیل پر ٹکٹ فروشی کا سنگین الزام عائد

پارٹی صدر امتیاز جلیل پر اسی نوعیت کے الزامات ممبئی میں بھی عائد کئے جا رہے ہیں۔ ممبئی ایم آئی ایم کے صدر فاروق شابدی نے عین الیکشن سے قبل اپنے عہدے سے استعفی دے کر پارٹی کی قیادت کو سخت پیغام دیا ہے۔ فاروق شابدی نے استعفی کی وجہ کو ذاتی نوعیت کا قرار دیا لیکن فاروق شابدی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاستی قیادت پر اعتماد ختم ہونے، تنظیمی فیصلوں میں یکطرفہ رویہ اختیار کرنے اور ممبئی اعظمی میونسپل کارپوریشن انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم میں مبینہ طور پر بے ضابطگیوں کے سبب انہوں نے استعفی دیا ہے۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ریاستی صدر امتیاز جلیل نے مقامی قیادت کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے پیسوں کے عوض ٹکٹ فروخت کیے ہیں۔


امتیاز جلیل نے ان کے خلاف عائد الزامات اور ناراضگی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ لیڈران اور کارکنان کی ناراضگی جائز ہے، وہ سب میرے اپنے ہیں۔ ان کی ناراضگی کے متعلق مجھے کسی بھی قسم کی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب ایک امیدوار کو ٹکٹ دیا جاتا ہے تو باقی خواہشمند افراد میں ناراضگی کا پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ کچھ لوگ فیصلے کو قبول کر لیتے ہیں اور کچھ افراد الزام تراشی اور تہمتیں عائد کرتے ہیں۔ جن کو ٹکٹ نہیں ملا اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مجلس سے الگ ہیں۔ وہ کل بھی ہمارے تھے، آج بھی ہمارے ہیں اور کل بھی ہمارے رہیں گے۔ انہیں ہم پارٹی سے الگ نہیں سمجھتے۔

اس معاملے پر امتیاز جلیل کی صفائی کے باوجود پارٹی میں ان کے خلاف ناراضگی ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ پارٹی کے اندرونی حلقوں میں یہ سوال زور پکڑ رہا ہے کہ کیا امتیاز جلیل کی قیادت میں مہاراشٹر ایم آئی ایم اپنی سیاسی ساکھ برقرار رکھ پائے گی؟ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر قیادت نے فوری طور پر الزامات کا واضح جواب نہیں دیا اور ناراض لیڈران کو اعتماد میں نہیں لیا تو اس کا براہ راست نقصان آنے والے میونسپل کارپوریشن انتخابات میں پارٹی کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔


شولاپور میں بھی ایم آئی ایم کارکنان میں ٹکٹوں کی تقسیم کو لے کر ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ مجلس کے کارکنان کا الزام ہے کہ مقامی قیادت کے مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے حیدر آباد سے آئے احمد سادات نے ٹکٹوں کی تقسیم کی۔ شولاپور میں بھی کارکنان نے فاروق شابدی کے حق میں نعرے بازی کی۔ واضح رہے کہ فاروق شابدی ممبئی کے ساتھ شولاپور شہر ضلع صدر کے عہدے پر بھی فائز ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مہاراشٹرمیں ایم آئی ایم کی بڑھی مقبولیت کے ساتھ ساتھ تنظیمی نظم و ضبط ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ اندرونی اختلافات اور قیادت پر لگنے والے ٹکٹوں کی خرید و فروخت کے سنگین الزامات نہ صرف پارٹی کی ساکھ کو متاثر کر سکتی ہے بلکہ اس دعوے پر بھی سوال کھڑے کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے لیے متبادل سیاست کے لائق جماعت ہے۔