قومی خبریں

واجپئی: صحافی سے وزیر اعظم تک کا سفر طے کرنے والے آر ایس ایس رہنما

اٹل بہاری واجپئی پہلی بار 1957 میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ سال 1950 کی دہائی کے اوائل میں آر ایس ایس کی میگزین چلانے کے لئے انہوں نے قانون کی تعلیم بیچ میں ہی چھوڑ دی تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا اٹل بہاری واجپئی

آزاد ہندوستان کی سیاست میں متحرک رہے اٹل بہاری واجپئی بی جے پی کے شاید وہ واحد رہنما ہیں جنہیں دائیں بازو کے لوگوں میں ہی نہیں بلکہ سیکولر خیمہ میں بھی عزت کی نظر سے دیکھا گیا۔ان کا سنگھ سے گہرا رشتہ تھا اور سنگھ نے سیاست کےطور پر سنگھ کے سیاسی ونگ کوقائم کرنے اور مضبوط کرنے کی جو ذمہ داری دی تھی انہوں نے وہ ذمہ داری بخوبی نبھائی ۔ انہوں نے 90 کی دہائی میں بی جے پی کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بابری مسجد کی شہادت سے قبل اٹل بہاری واجپئی نے ایک متنازعہ تقریر بھی کی تھی لیکن ایسے حالات میں جب بابری مسجد کی شہادت کے بعد بی جے پی زیادہ ترسیاسی جماعتوں کے لئے اچھوت مانی جاتی تھی اس وقت واجپئی نے پارٹی کو ان حالات سے باہر نکالا۔

مدھیہ پردیش کے گوالیار شہر میں پیدا ہوئے اٹل بہاری واجپئی کے والد کا نام کرشن بہاری واجپئی اور ماں کا نام کرشنا دیوی تھا۔ ان کے والد کا آبائی گاؤں آگرہ ضلع کا بٹیشور تھا لیکن والد مدھیہ پردیش میں ٹیچر تھے اس لئے ان کی پیدائش وہیں ہوئی۔ اتر پردیش سے انہیں ہمیشہ لگاؤ رہا اور راجدھانی لکھنؤ سے وہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتے رہے تھے۔ آر ایس ایس کا رکن ہونے کی وجہ سے اٹل بہاری واجپئی نے تمام عمر شادی نہیں کی تھی۔

اٹل بہاری واجپئی پالیٹکل سائنس اور قانون کے طالب علم رہے اور انہوں نے ایک صحافی کے طور پر اپنے کیرئر کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے 1951 سے سیاسی میدان میں قدم رکھا اور اس کے بعد صحافت کو الوداع کہہ دیا۔ سال 1955 میں انہوں نے پہلی مرتبہ لوک سبھا انتخاب لڑا لیکن ہار گئے۔ اس کے بعد سال 1957 میں وہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ اس کے بعد وہ دو مرتبہ 1962 اور 1986 میں رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ اس دوران انہوں نے اتر پردیش، نئی دہلی اور مدھیہ پردیش سے لوک سبھا چناؤ لڑا اور جیت حاصل کی۔ واجپئی کو رکن پارلیمنٹ کے طور پر 5 عشروں کا تجربہ حاصل ہے اور اس دوران وہ 10 مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔

اپنے مختلف انداز بیاں، دلفریب مسکراہٹ، مخصوص آواز اور ٹھوس فیصلے لینے کے لئے مشہور واجپئی نے اپنے دور اقتدار میں ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر کرنے کے لئے کئی اقدام لئے ۔ انہیں اقدام کی وجہ سے بی جے پی کے ایجنڈے سے بالاتر رہنے کی وجہ سے ہی انہیں ہر پارٹی کے لوگ پسند کرتے تھے۔

Published: 16 Aug 2018, 6:24 PM IST

سب سے لمبے وقت تک وزیر اعظم رہے پہلے غیر کانگریسی رہنما اٹل بہاری واجپئی کو اکثر بی جے پی کا اعتدال پسند چہرہ قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کے نقاد انہیں اکثر آر ایس ایس کا ایسا خول قرار دیتے ہیں جو اپنی مسکراہٹ کے پیچے اپنی پارٹی کے ہندووادی گروپوں سے تعلقات کو چھپاتے تھے۔

سال 1999 میں واجپئی نے پاکستان کا دورہ کیا اور ان کی پارٹی کے کچھ رہنماؤں کی نکتہ چینی کے باوجود وہ بس میں سوار ہو کر لاہو ر پہنچے تھے۔ اس پاکستانی دورہ کے تعلق سے یہ کہا گیا تھا کہ یہ امریکہ کے دباؤ میں کیا گیا تھا۔لیکن واجپئی کی اس اسٹریٹجی کی کافی تعریف ہوئی اور اسے ہندوستان اور پاکستان کے نئے تعلقات کا آغاز قرار دیا گیا۔ لیکن اسی دور میں کشمیر میں پاکستان کی طرف سے دراندازی ہوئی اور ہندوستانی فوجیوں کو کرگل میں جنگ لڑنی پڑی جو واجپئی حکومت کی ایک بڑی چوک مانی جاتی ہے۔ واجپئی سیاست میں کامیاب ضرور رہے لیکن جب وہ وزیر اعظم تھے اس وقت ان کے وزیر خارجہ جسونت سنگھ دہشت گرد مسعود اظہر کو چھوڑنے قندھار گئے تھے۔ 2002 کے گجرات میں ہوئے مسلم کش فساد پرواجپئی کی خاموشی پر بھی بہت سوال کھڑے ہوئے تھے۔آزادی کے وقت انگریزوں کو معافی نامہ دینے کی بات کو چھوڑ بھی دیا جائے تب بھی واجپئی نے سیاسی طور پر اہم وحسا س موقعوں پر کبھی دوراندیشی سے کام نہیں لیا۔

بی جے پی کے 4 دہائی تک حزب اختلاف میں رہنے کے بعد واجپئی 1996 میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے لیکن اکثریت کا ہدف حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ان کی حکومت محض 13 دن میں ہی گر گئی۔ اگلی مرتبہ بی جے پی نے کئی دوسری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر لیا لیکن اس بار ان کے ساتھیوں نے بیچ میں ہی ساتھ چھوڑ دیا اور 13 مہینے کے بعد ان کی حکومت پھر گر گئی۔ اس کے بعد سال 1999 کے انتخابات میں واجپئی مزید مضبوط حکومت کے وزیر اعظم بنے اورا پنی 5 سال کی مدت پوری کی۔اس دوران بی جے پی نے علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کر کے این ڈی اے قائم کیا جس میں دودرجن سے زیادی سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں 80 سے زائد وزراء تھے ۔ بی جے پی کے رہنما اس دوران کہا کرتے تھے کہ ہم اتحاد میں ہیں اس لئے پارٹی کے ایجنڈے کو پیچھے رکھنا ہماری مجبوری ہے۔

Published: 16 Aug 2018, 6:24 PM IST

اٹل بہاری واجپئی کے 5 سال تک وزیر اعظم رہنے کے باوجود مخلوط حکومت چلانے کی وجہ سے آرٹیکل 370، ایودھیا میں رام مندر تعمیر اور یکساں سول کوڈ جیسے ایشوز ٹھنڈے بستے میں چلے گئے۔

اٹل بہاری واجپئی نے 11 اور 13 مئی کو راجستھان کے پوکھرن میں جوہری دھماکہ کرنے کا حکم دیا۔ یہ ہندوستان کا دوسرا جوہری تجربہ تھا ، اس سے قبل 1974 میں اندرا گاندھی نے پوکھرن میں ہی تجربہ کا حکم دیا تھا۔ دنیا کے کئی ممالک کی مخالفت کے باوجود ہندوستان کے جوہری دھماکہ کرنے کی وجہ سے امریکہ، کنیڈا، جاپان اور یورپی یونین سمیت کئی ممالک نے ہندوستان پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کر دیں تھیں۔

مرار جی دیسائی کی حکومت میں اٹل بہاری واجپئی وزیر خارجہ رہے تھے، وہ پہلے غیر کانگریسی وزیر خارجہ تھے۔ وہ ایسے پہلے وزیر خارجہ تھے جنہوں نے یواین اجلاس میں ہندی میں تقریر کی تھی

جن سنگھ (جو بعد میں جنتا پارٹی اور پھر بی جے پی بنی) کے بانیوں میں سے ایک اٹل بہاری واجپئی کو مودی حکومت نے ’بھارت رتن‘ کے اعزاز سے نوازا ہے۔

اٹل بہاری واجپئی سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ ایک کوی بھی تھے۔ ان کی کویتاؤں کا مجموعہ ’میری اکیاون کویتائیں‘ کافی مقبول ہوا تھا۔ ’ہار نہیں مانوں گا، رار نئی ٹھانوں گا‘ ان کی مقبول ترین کویتا میں سے ایک ہے۔

Published: 16 Aug 2018, 6:24 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 16 Aug 2018, 6:24 PM IST