قومی خبریں

آئی اے ایس بننے کا خواب لیے دہلی آئے کشمیری طلبا کا خواب چکناچور، لوٹے اَپنے گھر

کشمیر میں غیر یقینی کی حالت کے درمیان سول سروس یعنی یو پی ایس سی کی تیاری کر رہے درجنوں کشمیری طلبا اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔ گھر سے دور یہ طلبا گھر والوں سے کوئی رابطہ نہ ہونے سے تناؤ میں تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

یو پی ایس سی کے امتحان دے کر سول سروس کرتے ہوئے ملک کی خدمت کرنے کا خواب آنکھوں میں سنجوئے درجنوں کشمیری طلبا اپنے گھر سے دور دہلی کے مختلف کوچنگ میں پڑھ کر تیاریاں کر رہے تھے۔ لیکن برسراقتدار بی جے پی کے ذریعہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے بعد تقریباً 30 طلبا، جن میں زیادہ تر لڑکیاں تھیں، اپنے گھروں کو لوٹ گئے ہیں۔ حالانکہ ان طلبا نے دہلی کی کوچنگ کے لیے موٹی رقم خرچ کی تھی، لیکن 5 اگست کے بعد گھر والوں سے کسی قسم کا رابطہ نہ ہونے کے سبب پیدا تناؤ کے مدنظر ان طلبا نے اپنے کیریر کی قربانی دے دی ہے۔

Published: 20 Sep 2019, 10:10 AM IST

پلوامہ کی رہنے والی غزالہ بتاتی ہیں کہ ’’دہلی میں رہتے ہوئے مجھے ہر لمحہ اپنی فیملی کی فکر رہتی تھی۔ آخر کار میں نے اپنی کوچنگ کی قربانی دے کر گھر واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا۔‘‘ غزالہ کا کہنا ہے کہ اس نے دہلی کے اولڈ راجندر علاقے کے ایک کوچنگ سنٹر کو 1.55 لاکھ روپے کی فیس جمع کی تھی۔ اس نے بتایا کہ ’’حالانکہ میں نے صرف تین ہفتہ ہی کوچنگ لی، لیکن کوچنگ سنٹر نے میری پوری فیس واپس کرنے سے انکار کر دیا۔‘‘

Published: 20 Sep 2019, 10:10 AM IST

اسی طرح عالیہ بھی سول سروس میں جانا چاہتی تھیں۔ پلوامہ کی ہی عالیہ کا کہنا ہے کوچنگ کو آدھے راستے میں چھوڑنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا، کیونکہ اس سے ہماری سول سروس میں جانے کا امکان کم ہوتا ہے، لیکن کیا کرتے۔ عالیہ نے بتایا کہ ’’بچپن سے ہی میرا خواب آئی اے ایس بننے کا تھا، لیکن اب یہ سب ناممکن نظر آ رہا ہے۔‘‘ عالیہ کا کہنا ہے کہ بات چیت پر پابندی کے سبب ہی ایسا کرنا پڑا۔ عالیہ بتاتی ہے کہ وہ ایک قدامت پرست سماج سے تعلق رکھتی ہے، ایسے میں اس کے گھر والے ہر دن اس سے کم از کم 5-4 بار بات کرتے تھے، لیکن 5 اگست کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا تھا۔

Published: 20 Sep 2019, 10:10 AM IST

آئی اے ایس بننے کی تمنا رکھنے والے بہت سے کشمیری طلبا کو اب بھی وہ وقت یاد ہے جو انھوں نے کشمیر سے دفعہ 370 ہٹنے کے بعد دہلی میں گزارا اور ان کی فیملی والوں سے کوئی بات نہیں ہو پاتی تھی۔ بارہمولہ کے بلاس اہم کہتے ہیں کہ وہ ہر دن الگ الگ ویب سائٹ پر جا کر وادی کے حالات جاننے کی کوشش کرتے تھے۔ بلال کا کہنا ہے کہ ’’اس کے بعد ہی میں ناشتہ وغیرہ کر پاتا تھا۔ پہلے دو ہفتے تو کچھ گراؤنڈ رپورٹ نظر آتی تھیں، جس سے ہمیں اور گھبراہٹ ہونے لگتی تھی۔‘‘ بلال 37 اگست کو بارہمولہ لوٹ آئے۔

Published: 20 Sep 2019, 10:10 AM IST

کلگام کے ذاکر احمد کی بھی ایسی ہی کہانی ہے۔ وہ پچھلے 8 مہینے سے دہلی میں رہ کر آئی اے ایس امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ 5 اگست کے بعد وہ ایک دن بھی پڑھائی پر فوکس نہیں کر پائے۔ بلال بتاتے ہیں کہ ’’میں کئی دنوں تک لائبریری جا ہی نہیں پایا، ہر وقت ٹی وی دیکھتا رہتا، اور الگ الگ نیوز چینلوں پر خبریں دیکھتا رہتا۔‘‘ ذاکر نے تقریباً ایک مہینہ دہلی میں رک کر کمیونی کیشن سے پابندی ختم ہونے کا انتظار کیا، اور آخر کار واپس آ گئے۔

Published: 20 Sep 2019, 10:10 AM IST

ایک اور آئی اے ایس کی تیاری کر رہے طالب علم نے پہچان ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اپنے گھر والوں کی خیر و خیریت جاننے کے لیے 5 اگست کے بعد وہ تین بار دہلی اور سری نگر آئے گئے ہیں۔

Published: 20 Sep 2019, 10:10 AM IST

اس نامہ نگار نے دہلی میں کچھ کشمیری طلبا سے فون پر بات کی۔ ان میں سے زیادہ تر کا کہنا تھا کہ انھوں نے گزشتہ تقریباً دو مہینے سے نہ تو کمرے کا کرایہ چکایا ہے اور نہ ہی بجلی پانی کا بل بھرا ہے۔ ایسے میں مکان مالک ان سے کمرہ خالی کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے گھر والے ہمیں پیسہ بھیج ہی نہیں پا رہے ہیں، کیونکہ 5 اگست کے بعد سے کشمیر میں انٹرنیٹ بند ہے، ایسے میں ای-بینکنگ کیسے ہوگی۔‘‘

(اس رپورٹ میں طالبات کے نام ان کی شناخت کو پوشیدہ رکھنے کے مقصد سے بدل دیے گئے ہیں۔)

Published: 20 Sep 2019, 10:10 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 20 Sep 2019, 10:10 AM IST