
تصویر سوشل میڈیا
اتر پردیش میں اخلاق لنچنگ کیس ایک بار پھر بحث کے مرکز میں ہے۔ ریاستی حکومت کی جانب سے اس مقدمے کو واپس لینے کی درخواست پر گورنر کی منظوری کے بعد ماہرین قانون اور سِول سوسائٹی کے حلقوں میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ حکومت کے اس قدم کو انصاف کے عمل پر براہِ راست ضرب قرار دیا جا رہا ہے۔
اسی ہفتے اتر پردیش کے ضلع گوتم بدھ نگر کی فاسٹ ٹریک کورٹ 2015 کے دادری لنچنگ کیس میں تمام ملزمین کے خلاف مقدمہ واپس لینے کی سرکاری عرضی پر اپنا فیصلہ سنانے والی ہے۔ ریاستی حکومت کے خصوصی وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس سلسلے میں گورنر کی اجازت حاصل کر لی گئی ہے۔
Published: undefined
ریاست کی گورنر آنندی بین پٹیل نے اس معاملے میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کو عدالت سے مقدمہ واپس لینے کی اجازت مانگنے کی منظوری دی ہے۔ اس فیصلے پر سِول سوسائٹی اور قانون کے ماہرین نے سخت ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جرم کے 10 برس بعد، جب مقدمہ اپنے آخری مرحلے میں ہے، اس طرح کی کارروائی انصاف کے تصور کو کمزور کرتی ہے اور خطرناک مثال قائم کرتی ہے۔
یاد رہے کہ 28 ستمبر 2015 کو دادری کے بساہڑہ گاؤں میں ایک مشتعل ہجوم نے 52 سالہ محمد اخلاق کو ان کے گھر سے گھسیٹ کر بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔ الزام تھا کہ ان کے گھر میں گائے کا گوشت موجود ہے۔ اس حملے میں اخلاق کے بیٹے دانش بھی شدید طور پر زخمی ہوئے تھے۔ بعد میں فرانزک جانچ میں واضح ہوا کہ فریج سے ملا گوشت گائے کا نہیں تھا۔ اس واقعے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور یہ گاؤ رکشا کے نام پر ہونے والے ہجومی تشدد کی علامت بن گیا۔
Published: undefined
کئی برس کی تاخیر کے بعد 2022 میں اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔ اہم گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہو چکے ہیں اور صرف چند گواہ باقی ہیں۔ اسی مرحلے پر حکومت کی جانب سے مقدمہ واپس لینے کی درخواست سامنے آئی ہے، جسے سِول سوسائٹی جان بوجھ کر انصاف کے عمل کو ناکام بنانے کی کوشش قرار دے رہی ہے۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ قتل اور قتل کی کوشش جیسے سنگین الزامات والے معاملے میں مقدمہ واپس لینے کی اجازت دینا آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہے۔ ان کے مطابق، یہ قدم سماجی ہم آہنگی کے نام پر تشدد کو معمول بنانے کی کوشش ہے۔ سِول سوسائٹی نے خبردار کیا ہے کہ اس سے اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں سزا سے بچ نکلنے کا رجحان مضبوط ہوگا اور جمہوری اداروں پر عوامی اعتماد کو شدید نقصان پہنچے گا۔
Published: undefined