قومی خبریں

’اراولی پہاڑی‘ کی نئی تعریف پر اجئے ماکن کا اظہارِ فکر، راجیہ سبھا میں پیش کیے اپنے خدشات

اجئے ماکن نے ایوان بالا میں کہا کہ ’’میں حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ شمالی ہند کو ’دھول کا کٹورا‘ بننے سے بچانے کے لیے ’مقامی زمین‘ والے نئے پیمانہ کو فوراً واپس لیا جائے۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>راجیہ سبھا میں اپنی بات رکھتے ہوئے اجئے ماکن، ویڈیو گریب</p></div>

راجیہ سبھا میں اپنی بات رکھتے ہوئے اجئے ماکن، ویڈیو گریب

 

اراولی پہاڑی سلسلہ کے بارے میں مودی حکومت کی نئی تعریف نے ایک نیا تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔ کانگریس کی سینئر لیڈر سونیا گاندھی سمیت کئی شخصیات اس بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کر چکی ہیں، اور اب کانگریس کے راجیہ سبھا رکن اجئے ماکن نے ایوان بالا میں اپنی فکر ظاہر کی ہے۔ انھوں نے ایوان میں اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’اراولی پہاڑی سلسلہ 2.5 ارب سال قدیم ہے۔ اب اراولی پہاڑی سلسلہ اس قدیم تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ اس نے براعظموں کی ٹکر کا سامنا کیا، اس نے کئی عہد کے کٹاؤ کا سامنا کیا، اب یہ اپنے سب سے بڑے خطرے کا سامنا کر رہی ہے... اور وہ خطرہ ہے ایک حکومتی تعریف۔‘‘

Published: undefined

اجئے ماکن کا کہنا ہے کہ ’’مجوزہ ’100 میٹر اصول‘ قانونی لغت اور ماحولیاتی حقائق کے درمیان ایک الگاؤ ہے، جو اس ’گرین وال‘ (سبز دیوار) کو تباہ کرنے کا جوکھم پیدا کرتا ہے جو شمالی و شمال مغربی ہندوستان کو ریگستان سے بچاتی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’پانی کے سائنس کے نظریہ سے اراولی کی چٹانوں میں ایک خاص ’سیکنڈری پوروسٹی‘ ہوتی ہے، یہ ان چٹانوں سے پانی کو رِستے ہوئے زمین کے نیچے جانے دیتی ہے۔ اس خطہ ارض میں سالانہ تقریباً 20 لاکھ لیٹر فی ہیکٹیر زیر زمین پانی رچارج کرنے کی صلاحیت ہے۔ گروگرام اور فرید آباد جیسے ضلعوں کے لیے یہی تازہ پانی کا واحد ذریعہ ہے۔‘‘

Published: undefined

کانگریس رکن پارلیمنٹ نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’حالات خراب ہے، اس کے باوجود غیر قانونی کانکنی کے ذریعہ وسائل کی لوٹ مچی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ سی ای سی کی 2018 کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ 1960 کی دہائی کے آخر سے راجستھان میں اراولی پہاڑی سلسلہ کا 25 فیصد حصہ غیر قانونی کانکنی کے سبب تباہ ہو چکا ہے۔ صرف ایک الور ضلع میں 128 میں سے 31 پہاڑیاں پوری طرح غائب ہو چکی ہیں۔ انھیں پوری طرح برابر کر دیا گیا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’حالات اب بحران کے نکتہ پر پہنچ گئے ہیں۔ 20 نومبر 2025 کو ایک نئی تعریف کو منظوری ملی، جس کے مطابق ایک ’اراولی پہاڑی‘ کو اپنی مقامی زمین سے 100 میٹر یا اس سے زیادہ اونچا ہونا چاہیے۔‘‘

Published: undefined

اراولی پہاڑی کی نئی تعریف پر اجئے ماکن نے اپنے خدشات ظاہر کرتے ہوئے کچھ اہم باتیں سامنے رکھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’ایف ایس آئی (فاریسٹ سروے آف انڈیا) کا داخلی ڈاٹا بتاتا ہے کہ راجستھان میں 107498 اراولی پہاڑیاں ہیں، ان میں سے صرف 1048 ہی مقامی زمین سے 100 میٹر اوپر ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ راجستھان میں 99 فیصد اراولی پہاڑیاں اپنی قانونی منظوری اور سیکورٹی سے محروم ہو جائیں گی۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ’’100 میٹر والے اصول کا نتیجہ ایک ماحولیاتی آفت کی شکل میں نظر آ سکتا ہے۔ تھار ریگستان پہلے سے ہی تقریباً 2 سالوں میں ایک کلومیٹر کی شرح سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اِسرو کے ایک نقشہ (2021) کے مطابق ہندوستان کا تقریباً 9.78 کروڑ ہیکٹیر علاقہ پہلے سے ہی ڈیگریڈیشن کے دور سے گزر رہا ہے۔‘‘

Published: undefined

اپنی تقریر کے آخر میں اجئے ماکن کہتے ہیں کہ ’’ان پہاڑیوں کا خاتمہ ’واٹر رچارج زون‘ کو ختم کر دے گا۔ کانکنی والے علاقوں میں آبی سطح پہلے ہی 1000 سے 2000 فیٹ کی گہرائی تک گر چکی ہے۔ یہ حالات فکر انگیز ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ انھوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں حکومت سے گزارش کرتا ہوں کہ شمالی ہند کو ’دھول کا کٹورا‘ بننے سے بچانے کے لیے ’مقامی زمین‘ کے اس پیمانہ کو فوراً واپس لیا جائے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined