
تصویر بشکریہ یو ٹیوب
میر تقی میر کا آخری زمانہ تھا اور غالب کی مقبولیت پروان چڑھ رہی تھی۔ کسی نے غالب کی شعر گوئی کے حوالے سے میر تقی میر سے ان کی رائے دریافت کی تو ناخدائے سخن میر تقی میر نے فرمایا، ’’اگر اس نے بسیار گوئی سے پرہیز نہ کیا تو ہزیان بکنے لگے گا۔‘‘ لیکن متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والے اردو شاعر ڈاکٹر زبیر فاروق کا معاملہ مختلف اور منفرد ہے۔ وہ بسیار گو کے ساتھ ساتھ زود گو بھی ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے جلد کے امراض کے ماہر ڈاکٹر زبیر فاروق اردو شعر و ادب کی دنیا میں کئی اعتبار سے ممتاز، مختلف، منفرد اور یکتا ہیں۔ ان کی شاعری کے 106 مجموعے اور ان کے کلام کے 13 ویڈیوز منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ڈاکٹر زبیر فاروق کی شخصیت اور شعری کمالات اور امتیازات پر تفصیل سے گفتگو کرنے سے پہلے عرب کے اس اردو شاعر کے تعلیمی سفر اور خاندانی پس منظر پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔
زبیر فاروق کا حقیقی نام زبیر فاروق العرشی ہے۔ وہ فاروق کے زیر تخلص شاعری کرتے ہیں۔ ان کی پیدائش 19 اگست 1956۔میں دوبئی میں ہوئی۔ ان کے والد تجارت پیشہ تھے اور ان کا شعرو ادب سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ زبیر فاروق نے کراچی کے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ پاکستان میں ڈاکٹری کی پڑھائی کا دوسرا سب سے بڑا فائدہ انہیں یہ ہوا کہ وہ اردو زبان کی شیرینی سے واقف ہو گئے۔ اردو کی چاشنی میں وہ ایسے شرابور ہوئے کہ سخن فہمی اور سخن طرازی کی جو صلاحیت ان کے اندر پہلے سے موجود تھی اس نے انہیں اردو میں شعر گوئی کی طرف مائل کیا۔ اور آج وہ سب سے زیادہ شعری مجموعے تخلیق کرنے والے شاعر ہیں۔ وہ عربی، انگریزی اور اردو میں شاعری کرنے والے ’سہ لثانی‘ شاعر ہیں۔ فاروق دوبئی کی وزارت صحت سے تین برس تک منسلک رہے۔
Published: undefined
زبیر فاروق کو کئی امتیازات حاصل ہیں ان میں اہم ترین یہ ہے وہ عرب کے پہلے صاحب دیوان اردو شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کے سلسلے میں معروف ادیب احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں کہ ’’زبیر فاروق اردو کے پہلے عرب شاعر ہیں۔ صرف یہی خصوصیت تاریخ ادب اردو میں ان کا نام زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔ ان کی غزلیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ہماری کلاسیکی شاعری کا بالا ستیعاب مطالعہ کیا ہے۔ فاروق نے جدید اردو غزل کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے۔ اسی لئے ان کی بیشتر غزلوں میں قدیم اسلوب و لفظیات کی جگہ جدید غزل کی ہمہ گیری، رمزیت، صداقت، دوستی اور حقیقت پسندی جلوہ گر ہے۔‘‘
فاروق نے اپنی غزلوں میں جدید طرز احساس اور زندگی کے جدید ترین حقائق کو بہت سلیقے سے سمو یا ہے۔
ایسا مصروف ہوں زندگی کے لئے
خود سے ملنا بھی اب مختصر ہو گیا۔
۔۔۔۔۔
بازار کو ہم لوگ اٹھا لائے ہیں گھر میں
ہر گھر میں ہیں اب گرمی بازار کی باتیں
'کچھ شاعری ذریعہ دولت نہیں مجھے' کے مصداق زبیر فاروق شوقیہ شعر کہتے ہیں وہ جلد کے امراض کے ماہر ڈاکٹر ہیں۔ چہروں کو خوبصورتی عطا کرنے کا فن جانتے ہیں۔ اس فن اور مہارت کا استعمال انکی شاعری میں جابجا نظر آتا ہے۔ وہ اپنے جذبوں اور احساسات کو الفاظ کی نشست و برخاست سے سجاتے اور سنوارتے ہیں اور اس کو خوبصورت شعری پیکر عطا کرتے ہیں۔
Published: undefined
ہم بڑے اہل خرد بنتے تھے یہ کیا ہو گیا
عقل کا ہر مشورہ دیوانہ پن لگنے لگا
۔۔۔۔
اب تجھ سے ملاقات کے امکان بھی گئے
تو بھی نہیں ہے اور تری تصویر بھی نہیں
۔۔۔۔
کیا خوف ہیں جو پلنے لگے ہیں فضاؤں میں
ڈرنے لگے ہیں اب تو پرندے اڑان سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زبیر فاروق کا کلام زندگی کے روشن اور تاریک پہلوؤں کی حقیقت بیانی کا مظہر ہے۔ انہیں نہ صرف دنیائے عرب بلکہ برصغیر کے مصائب و آلام کا بھی احساس ہے جن کی ترجمانی انکی غزلوں میں نظر آتی ہے۔
اپنوں نے غم دیے ہیں تو شکوہ کسی سے کیا
برباد کرنے والا چمن کا چمن میں ہے
۔۔۔۔
کچھ بھی محفوظ نظر آتا نہیں ہے فاروق
ہم یہ دستار کو دیکھیں کہ سروں کو دیکھیں
۔۔۔
عزت نہ پا سکوگے بزرگوں کے نام سے
جانیں گے لوگ تمکو تمہارے ہی کام سے
۔۔۔۔
دشمن سہی وہ لاکھ مگر غیر تو نہیں
مجھ سے مقابلہ مری اپنی انا کا ہے
Published: undefined
زبیر فاروق نے شاعری میں محض لکیر کو نہیں پیٹا ہے۔ انہوں نے پامال زمینوں میں شعر کاشت نہیں کئے ہیں بلکہ منفرد طرز کی ردیفوں میں شعر موزوں کئے ہیں۔ انکی وضع کردہ کچھ ردیفیں بہت منفرد ہیں۔
ردیف۔۔۔دماغ میں ناگن
گلوں کو ہاتھ لگایا تو ڈس لیا اس نے
گلاب ٹہنی سے لپٹی تھی باغ میں ناگن
ردیف ۔۔۔مجھ پر رعب جمائے
گھر سے گھبرا کر میں باہر سڑک پہ آ کر سویا
دیکھ کے مجھ کو ایک گداگر مجھ پر رعب جمائے
۔۔۔
دیکھ کے آئینے میں اپنی صورت میں گھبراؤں
مجھ سا ہی اک میرے اندر مجھ پر رعب جمائے
۔۔
ردیف۔۔ باطل کی زد پہ ہوں
زنداں کے آس پاس ہوں باطل کی زد پہ ہوں
سچا ہوں اس لئے میں سلاسل کی زد پہ ہوں
۔۔۔
Published: undefined
زبیر فاروق کے شاعری کی اصل خصوصیت سہل ممتنع، فکر انگیزی اور تغزل ہے۔
جگ کے آگے رونا کیا
صحراؤں میں بونا کیا
وقت کی سنگت میں اپنا
ہونا اور نہ ہونا کیا
دل کو دل سے نسبت ہے
پیتل، چاندی، سونا کیا
ہم تو یوں بھی تیرے ہیں
ہم پر جادو ٹونا کیا
۔۔۔۔
انکے اشعار محبت کے لازوال جذبے سے سرشار ہیں لیکن انکے اظہار میں پھکڑ پن نہیں ہے بلکہ حد درجہ شائستگی اور وقارپایا جاتا ہے۔
سورج ڈھلے گا جب تو وہ آئیں گے بام پر
اپنی طلوع صبح تو ہوتی ہے شام سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پھر آج مجھ سے خفا ہو گیا
ہوا کی طرح بے وفا ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے ہی بس خیال میں پاگل تھی زندگی
آوارگی میں گھومتا بادل تھی زندگی
زبیر فاروق عورت کے جذبہ ایثار و قربانی کی بہت قدر کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ مرد کی انا پرستی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
بیٹی بھی ہے بہن بھی ہے اور بیوی بھی ماں بھی
چار الفاظ تلک محدود کہانی عورت کی
۔۔۔
آج تلک وہ اپنی 'انا' اور 'میں' نہ مار سکا
مرد کرے برداشت کہاں من مانی عورت کی
۔۔۔۔۔۔
Published: undefined
شاعری کے علاوہ فاروق کے اور بھی کئی شوق ہے جو انہیں دیگر شعرا سے منفرد بناتے ہیں۔ وہ موسیقی اور گلوکاری کے بھی شوقین ہیں۔ انہوں نے اپنے کلام کی طرزیں خود تیار کی ہیں۔ خود ہی موسیقی ترتیب دی ہے اور خود ہی اپنے کلام کو گایا بھی ہے۔ ان کے نغموں کے 13 ویڈیوز بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ’صدائے دل‘ کے نام سے ایک البم بھی دو ہزار پانچ میں رلیز ہوا۔ اس میں انہوں نے اپنی غزلیں اپنی آواز میں اپنے ذریعے ترتیب دی گئی موسیقی کے ساتھ گائی ہیں۔ ان کی غزلوں کا سی ڈی کی شکل میں کلکشن۔ 'ایک عرب جب اردو بولے' کے نام سے کولکاتہ سے ریلیز ہوا ہے۔
'ایکتا کا چراغ' فاروق کے 35 شعری مجموعات کا انتخاب ہے۔ اس میں فاروق کی شاعری کے تمام رنگوں کو یکجا کردیا گیا ہے۔ اپنے کلام کے اس انتخاب کو ڈاکٹر فاروق نے اپنے قریبی دوست ہندوستان کے سابق وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی کے نام معنون کیا ہے۔
جہاں تک انعامات و اعزازات کا تعلق ہے تو زبیر فاروق کو بے شمار انعامات سے نوازا جا چکا ہے۔ ان میں حکومت پاکستان کا عطا کردہ 'تمغہ امتیاز' خاص ہے۔ یہ پاکستان کا اعلیٰ سویلین ایوارڈ ہے۔
شارجہ انٹرنیشنل بک فیئر کی جانب سے 2025 میں انہیں ’اماراتی اردو شاعر‘ قرار دیا گیا۔ یہ اعزاز ان کی عالم گیر سطح پر اردو شعر و ادب کی خدمت کا اعتراف ہے۔ اس فیئر میں 66 ملکوں کے 250 قلمکاروں نے شرکت کی تھی۔ قلمکار جاوید انور نے زبیر فاروق کی شخصیت اور شاعری پر ایک کتاب مرتب کی ہے۔ ان کے 106 شعری مجموعات میں 'پس کہسار'، 'ڈوبتے لمحے'، 'سرد موسم کی دھوپ'، 'آیات کرب'، 'گرفتار انا'، 'ابر ستم'، 'بھٹکا ہوا اک پل'، 'خزاں سماں ہے بہار موسم'، 'اشک رواں'، 'حدت'، 'کروٹیں'، خواب ریزہ ریزہ'، 'آزار شناسائی، 'حرف شناس'، 'رقص کناں سایہ'، 'حسن ترنم'، 'شہر تنہائی'، 'برق تپاں'، 'مہر سکوت'، 'شہر غزل' اور 'آئینے میں بکھرے عکس' شامل ہیں۔
Published: undefined
زبیر فاروق کے لئے شاعری محض تفریح طبع کا سامان نہیں ہے بلکہ وہ اس سے امن، بھائی چارہ، یکجہتی اور اخوت کا عالم گیر پیغام دیتے ہیں۔
میرے تن میں ترے جسم میں
خون جو ہے رواں ایک ہے
۔۔۔
رنگ بھی ہے جدا نسل بھی
پھر بھی طرز فغاں ایک ہے
۔۔۔۔
ہم نے سکھلایا ہے لوگوں کو محبت کرنا
ہم سے درویشوں کی بس یہ ہے کمائی صاحب
ڈاکٹر زبیر فاروق عرب دنیا اور ان تمام ملکوں کے درمیان محبت کے ایک پل کی حیثیت رکھتے ہیں جہاں جہاں اردو بولنے والے موجود ہیں۔ 69 برس کی عمر میں بھی انکی شاعری جوان ہے ۔ اس کا جوبن اور بانکپن نکھرتا جا رہا ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ ماہ بہ ماہ اور سال بہ سال انکی شعری تخلیقات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
Published: undefined