ادبی

مضطر خیرآبادی: اپنی طرز کا اکیلا شاعر

مضطر خیرآبادی اردو کے منفرد شاعر تھے جن کا کلام عرفان، غزل اور ظرافت کا حسین امتزاج ہے۔ جاوید اختر نے ان کا بکھرا ہوا کلام یکجا کر کے ’دیوان مضطر‘ شائع کیا اور ادبی دنیا کو نایاب خزانہ دیا

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

 

ایک شاعر پوتے کو اپنے شاعر دادا کے جہاں تہاں بکھرے کلام کو یکجا کرنے کی جستجو ہوئی۔ اس نے اپنے وطن کے آبائی مکان میں پرانے صندقوں اور الماریوں کو کھنگالا۔ جن شہروں میں دادا جان بطور مجسٹریٹ تعینات رہے تھے وہاں کے دورے کئے۔ کتب خانوں کی خاک چھانی۔ خاندان کے بزرگوں سے ملاقاتیں کیں۔ اور آخر کار دس برس کی محنت کے بعد وہ اپنے دادا کا کلام جمع کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ پانچ جلدوں میں 'دیوان مضطر' کے نام سے ایک استاد شاعر کا غیر مطبوعہ کلام شائع کردیا گیا۔اسی تگ و دو اور تلاش و جستجو کے دوران اسے ایک دستاویزی ثبوت یہ بھی ملا کہ جو معروف زمانہ غزل آخری مغل باد شاد بہادر شاہ ظفر کے نام سے منسوب ہے وہ اسکے دادا کی غزل ہے۔ چلئے آپ کو بتائے دیتے ہیں کہ وہ پوتا کون ہے اور دادا کون ہے۔ پوتا ہے فلمی دنیا کا عظیم نغمہ نگار، شاعر اور مکالمہ نگار جاوید اختر اور اسکے دادا ہیں مضطر خیر آبادی۔ اور وہ مشہور زمانہ غزل جو بہادر شاہ ظفر کے نام سے منسوب ہےاسکا مطلع ہے۔۔

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں۔

Published: undefined

کون ہیں یہ مضطر خیر آبادی ۔انکا خاندانی پس منظر کیا ہے۔ انکی شاعری کا رنگ کیا ہے۔ وہ کس کے شاگرد تھے۔ شاعری کے علاوہ انکا کیا مشغلہ تھا یہ سب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

مضطر خیر آبادی کا حقیقی نام سید محمد افتخار حسین تھا اور وہ مضطر کے تخلص کے تحت شاعری کرتے تھے۔ مضطر خیر آبادی 1869 میں اتر پردیش کے قصبے خیر آباد میں پیدا ہوئے تھے یہ ضلع سیتا پور میں آتا ہے۔ مضطر ایک نہایت علمی اور ادبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔مضطر کی گھٹی میں شاعری تھی اور کیوں نہ ہو انکے بھائی، والدین اور نانا سب شاعر تھے۔ والد احمد حسن، رسوا کے زیر تخلص اور والدہ سعید النساء، بی بی حرماں کے تخلص کے ساتھ شاعری کرتی تھیں۔ نانا مفتی فضل حق خیر آبادی بھی شاعر تھے۔وہ اردو اور عربی میں شاعری کرتے تھے۔انکے کلام کا بڑا حصہ عربی میں ہے۔ بھائی محمد حسین، بسمل کے زیرتخلص شاعری کرتے تھے۔والدہ بی بی حرماں کی قادر الکلامی کا ثبوت یہ شعر ہے۔

درد دل، درد جگر، کاوش دل، کاہش جاں

اتنے آزار ہیں اور ایک کلیجہ میرا

Published: undefined

مضطر خیر آبادی کے ماموں شمس العلماء عبدالحق خیرآبادی تھے جنہیں شاعری میں امیر مینائی سے تلمذ کا شرف حاصل تھا۔مضطر خیر آبادی کے فرزند معروف شاعر جاں نثار اختر تھے جنکے فرزند جاوید اختر ہیں۔ اس طرح اگر یہ کہا جائے کہ مضطر خیر آبادی کا گھرانہ 'ایں خانہ تمام آفتاب است' ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ مضطر خیر آبادی ریاست ٹونک کے درباری شاعر تھے انہیں دربار کی جانب سے 'اعتبار الملک‘ ' ’اقتدار جنگ بہادر اور افتخارالشعراء' جیسے خطابات، القاب اور اعزازات سے نوازا گیا تھا۔ اگر مضطر خیر آبادی کے ساتھ انکے نانا علامہ مفتی فضل حق خیر آبادی کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ نا انصافی ہوگی۔علامہ فضل حق کے مورث اعلی شیر المک ایران سےہجرت کرکے ہندستان آئے تھے۔اہل علم کا ماننا ہیکہ علامہ فضل حق کا سلسلہ نسب 32 واسطوں سے ہوتا ہوا خلیفہ دوم حضرت عمر سے جاکر ملتا ہے۔علامہ فضل حق1897 میں خیر آباد میں پیدا ہوئے ۔ ۔انہوں نے والد کے حکم پر بادل نا خواستہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت کی لیکن والد کے انتقال کے بعد انگریزوں کی ملازمت سے دامن چھڑا لیا۔ملک کی پہلی جنگ آزادی دس مئی1857 کو میرٹھ سے شروع ہوئی۔ وہ بہادر شاہ ظفر کے بلاوے پر جنگ آزادی میں حصہ لینے کے لئے دہلی آگئے۔علامہ فضل حق خیر آبادی نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوا صادر کیا تھا جس پر سیکڑوں علما نے دستخط کئے تھے۔ پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد

30 جنوری1859 کو علامہ بغاوت کے الزام میں گرفتار کر لئے گئے۔عمر قید کی سزا ملی۔ اور جزیرہ انڈو مان نیکو بار بھیج دئے گئے جہاں20 اگست1861 میں انکا انتقال ہوگیا۔جزیرہ Ross کے قریب مجاہد آزادی مولانا لیاقت الہ آبادی کے مزار کے قریب دفن ہوئے۔

Published: undefined

جہاں تک اس غزل کا تعلق ہے۔ 'نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، محمد رفیع کی آواز میں یہ غزل دنیا بھر میں بہادر شاہ ظفر کے نام سے منسوب ہو کر مشہور ہوگئی ۔ لیکن جاوید اختر کی مضطر خیرآبادی کے کلام کی تلاش کے دوران خود ان کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی یہ غزل ان کے دیگر کلام کے ساتھ دستیاب ہوئی ،جس سے اس غزل کے تعلق سے اردو ادب کی بڑی بحث کا آخر خاتمہ بالخیر ہوا۔

مضطر کا پہلا مجموعہ کلام 'الہامات' کے نام سے 1934 میں انکے فرزند یادگار حسین نشتر خیر آبادی نے شائع کیا تھا۔'الہامات' مضطر خیر آبادی کے عرفانی کلام کا مجموعہ ہے۔

مضطر کی شاعری خالص غزلیہ شاعری ہے جس میں شوخی بھی ہے ، ظرافت بھی ۔خیال کی بلندی بھی ہے اور نیرنگی بھی ۔انکی شاعری میں عشق کی چاشنی بھی ہے اور عرفانی پہلوؤں کا ادرک بھی۔ انکی زبان نہایت شفاف ،شستہ اور دلکش ہے۔ محاوروں اور تشبیہ و استعارات نےانکے اشعار کو اور پر اثر بنا دیا ہے۔

جان کمبخت محبت میں بچائے نہ بچی

بت کافر سے جو چھوٹی تو خدا نے لے لی

۔۔

کہیں اس پھوٹے منہ سے بے وفا کا لفظ نکلا تھا

بس اب طعنوں پہ طعنے ہیں کہ بے شک با وفا تم ہو

۔۔

الجھ پڑنے میں کاکل ہو، بگڑنے میں مقدر ہو

پلٹنے میں زمانہ ہو، بدلنے میں ہوا تم ہو

۔۔۔

وہ کہتے ہیں یہ ساری بے وفائی ہے محبت کی

نہ مضطرؔ بے وفا میں ہوں نہ مضطرؔ بے وفا تم ہو

۔۔۔۔۔

Published: undefined

مضطر نے ہر قسم کی بحروں میں اپنی خوش فکر طبع کے جوہر دکھائے ہیں۔لیکن وہ اردو شاعری میں طویل ترین بحر میں غزل کہنے والے اکلوتے شاعر ہیں۔

انکی ایک مشہور غزل بحر رمل مخبون کا ایک مصرع باذوق افراد کے لئے پیش ہے ۔غزل کا ہر مصرع فعلاتن کے وزن پر ہے اور اس میں سو ارکان ہیں۔

''اسے کیوں ہم نے دیا دل، جو ہے بے مہری میں کامل، جسے عادت ہے جفا کی، جسے چڑھ مہر و وفا کی،جسے آتا نہیں آنا،غم و حسرت کا مٹانا، جو ستم میں ہے یگانہ، جسے کہتا ہے زمانہ،بت بے مہر و دغا باز،جفا پیشہ فسوں ساز،ستم خانہ برانداز،غضب جسکا ہر اک ناز،نظر فتنہ، مژہ تیر،بلا زلف گرہ گیر،غم و رنج کا بانی،قلق و درد کا موجب،ستم و جور کا استاد،جفا کاری میں ماہر،جو ستم کیش و ستمگر،جو ستم پیشہ ہے دلبر،جسے آتی نہیں الفت،جو سمجھتا نہیں چاہت،جو تسلی کو نہ سمجھے، جو تشفی کو نہ جانے، جو کرے قول نہ پورا،کرے ہر کام ادھورا،یہی دن رات تصور ہے کہ ناحق اسے چاہا،جو نہ آئے نہ بلائے،نہ کبھی پاس بٹھائے،نہ رخ صاف دکھائے،نہ کوئی بات سنائے،نہ لگی دل کی بجھائے،نہ کلی دل کی کھلائے،نہ غم و رنج گھٹائے،نہ رہ و رسم بڑھائے،جو کہو کچھ تو خفا ہو،کہے شکوے کی ضرورت، جو یہی ہے تو نہ چاہو،جو نہ چاہوگے تو کیا ہے،نہ نباہوگے تو کیا ہے،بہت اتراؤ نہ دل دیکے،یہ کس کام کا دل ہے،غم و اندوہ کا مارا،ابھی چاہو تو میں رکھ دوں، اسے تلووں سے مسل کر،ابھی منھ دیکھتے رہ جاؤ،کہ ہیں انکو ہوا کیا، کہ انہوں نے مرا دل لیکے مرے ہاتھ سے کھویا۔

Published: undefined

مضطر نے الیہیات اور عرفانیات جیسے دقیق موضوعات پر بھی اشعار نظم کئے۔

تری ذات واحد ہے بیدار مطلق تجھے تو کبھی نیند آتی نہیں ہے

تری آنکھ لگنے کی حسرت میں یارب کہاں تک میں قصے کہانی کہونگا

۔۔

بزم ہستی میں بڑے صاحب اسرار ہیں ہم

راز وحدت کی شہادت کو نمودار ہیں ہم

۔۔۔

تیری رنگت بہار سے نکلی

پھوٹ کر لالہ زار سے نکلی

۔۔

دل جو دھویا تو تو نظر آیا

کیا ہی صورت غبار سے نکلی۔

مضطر کے یہاں عامیانہ قسم کے اشعار بھی ملتے ہیں۔

وہ گلے سے لپٹ کے سوتے ہیں

آجکل گرمیاں جاڑوں میں

۔۔۔۔۔

زلف کو کیوں جکڑ کے باندھا ہے

اس نے بوسہ لیا تھا گال کا کیا

۔۔

دل اپنا بیچتا ہوں واجبی دام اس کے دو بوسے

جو قیمت دو تو لو، قیمت نہ دی جائے تو رہنے دو

۔۔۔۔۔۔۔

مضطر خیر آبادی 20؍ مارچ 1928ء کو گوالیار میں انتقال کرگئے لیکن اپنے کلام کا ایسا بیش بہا خزانہ چھوڑ گئے ہیں جسکی نظیر اردو شاعری میں ملنا محال ہے۔ انکے کچھ اشعار تو بے حد مقبول ہیں۔

مقبول اشعار

۔۔۔۔

وقت دو مجھ پر کٹھن گزرے ہیں ساری عمر میں

اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد

۔۔

"کِسی کے دردِ مُحبت نے عُمر بھر کے لیے

خُدا سے مانگ لیا انتخاب کر کے مُجھے "

۔۔۔

لحد کی سختیاں میت کا استقبال کرتی ہیں۔

جگہ دینے مقام گور سے پتھر نکلتے ہیں۔

۔۔

اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے

کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے

۔۔۔

مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت

کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے

۔۔۔۔

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

۔۔۔

مدہوش ہی رہا میں جہان خراب میں

گوندھی گئی تھی کیا مری مٹی شراب میں

۔۔۔

تو نہ آئے گا تو ہو جائیں گی خوشیاں سب خاک

عید کا چاند بھی خالی کا مہینہ ہوگا

۔۔۔

جو پوچھا منہ دکھانے آپ کب چلمن سے نکلیں گے

تو بولے آپ جس دن حشر میں مدفن سے نکلیں گے

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined