
کومل جوئیہ
پاکستانی اردو شاعری کے موجودہ منظر نامے میں کومل جوئیہ ایک ایسی آواز ہیں جو نہ صرف اپنی نفاست اور گہرائی کی وجہ سے نمایاں ہیں بلکہ اپنی بے باک انا، اپنے طنز کی تیز دھار اور اپنے عورت ہونے کے شعور کی وجہ سے بھی منفرد مقام رکھتی ہیں۔
Published: undefined
9 نومبر 1983 کو کبیر والا (ضلع خانیوال، پنجاب) میں پیدا ہونے والی شاذیہ علی عرف کومل جوئیہ کا اصل تعلق تاریخی جوئیہ قبیلے سے ہے۔ ایک وکیل باپ کی بیٹی نے، جن کے گھر میں شاعری کا کوئی ماحول نہیں تھا، چھٹی جماعت سے ہی شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ وہ دور نوشی گیلانی اور پروین شاکر کا عروج کا زمانہ تھا۔ کومل نے نوشی گیلانی سے متاثر ہو کر اپنے قلمی نام کے ساتھ ’جوئیہ‘ کا لاحقہ لگایا اور شاذیہ کی جگہ ’کومل‘ رکھ لیا تاکہ گھر والوں کی ناراضگی سے بچ سکیں۔
Published: undefined
1998 میں میٹرک کی طالبہ ہوتے ہوئے جب ان کا کلام اخبارات میں شائع ہونے لگا تو ایک دن والد کے دوست نے پوچھا ’’آپ بھی جوئیہ ہیں؟ شاعرہ کومل جوئیہ سے واقف ہیں؟‘‘ والد نے انکار کیا، مگر گھر آ کر بیٹی سے پوچھا۔ کومل نے خوفزدہ ہو کر سچ بتا دیا کہ ’وہ خود ہی کومل جوئیہ ہیں۔‘ خلافِ توقع والد نے ناراضگی نہیں جتائی بلکہ حوصلہ افزائی کی اور یوں وہ علی العلان شاعری کرنے لگیں۔ یہ واقعہ ان کی شخصیت کے 2 اہم پہلو واضح کرتا ہے: ایک طرف خاندانی روایات سے جڑی لڑکی کا خوف، دوسری طرف شعر کی آواز کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ۔
Published: undefined
ادبی سفر اور شعری مجموعے
کومل جوئیہ نے باقاعدہ ادبی رسائل، آن لائن فورمز اور بعد میں ریختہ، یوٹیوب اور سوشل میڈیا کے ذریعے مقبولیت حاصل کی۔ 2013 میں ان کا پہلا مجموعہ کلام ’ایسا لگتا ہے تجھ کو کھو دوں گی‘ شائع ہوا، جس نے انہیں راتوں رات مقبول کر دیا۔ 9 سال کے طویل وقفے کے بعد 2022 میں دوسرا مجموعہ ’ہاتھ پہ آئی دستک‘ منظر عام پر آیا۔ دونوں مجموعوں میں ان کی شاعری کی ترقی اور پختگی صاف نظر آتی ہے۔ پہلے مجموعے میں محبت کی تڑپ، جدائی کا درد اور عورت کی نفسیاتی کیفیات زیادہ ہیں، جبکہ دوسرے میں سماجی طنز، سیاسی بے چینی اور وجودی سوالات غالب ہیں۔
Published: undefined
کومل جوئیہ کی شاعری کے چند مرکزی تھیمز یہ ہیں:
محبت اور جدائی کا درد مگر بغیر روایتی انداز کے
عورت کا شعور، اس کی انا اور خود داری
سماجی ناانصافی، منافقت اور ریاکاری پر طنز
زبان و بیان کی جدت اور نئی ردیفوں کا استعمال
مذہبی اور سیاسی منافقت پر بے باک تنقید
ان کے چند اہم اشعار کا تجزیہ پیش ہے۔
میں ایک قتل کی کومل تھی چشم دید گواہ
کسی نے آدھی گواہی قبول کی ہی نہیں
یہ شعر پاکستانی معاشرے میں عورت کی قانونی حیثیت پر سب سے تیز و تند طنز ہے۔ شرعی قانون میں 2 عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کے برابر مانا جانا ایک تاریخی بحث رہی ہے۔ کومل اسے ’آدھی گواہی‘ کہہ کر نہ صرف ظلم کو بے نقاب کرتی ہیں بلکہ ’کومل‘ نام کا استعمال کر کے اپنی ذات کو بھی اس ظلم کا شکار دکھاتی ہیں۔ شعر میں درد بھی ہے، غصہ بھی اور خود داری بھی۔
Published: undefined
تو آپ شہر کے مانے ہوئے رفو گر ہیں
بتائیں دل کی سلائی کا کام جانتے ہیں؟
یہ شعر محبت کے روایتی زخمی دل والے تصور کو الٹ دیتا ہے۔ محبوبہ اب روتی نہیں، معالج سے سوال کرتی ہے۔ اس میں طنز کے ساتھ ساتھ خود داری بھی ہے کہ ’رفو گر‘ کو چیلنج کیا جا رہا ہے کہ کیا وہ واقعی دل جوڑنے کا ہنر جانتا ہے یا صرف کپڑے ہی رفو کر سکتا ہے؟
کومل جوئیہ جدید ردیفوں کی اختراع میں مہارت رکھتی ہیں۔ مثلاً
آنکھیں حریص نوچ لوں، چہرے ادھیڑ دوں
جتنے غلط بُنے گئے، لہجے ادھیڑ دوں
پھر ساری ڈوریوں کو میں سلجھاؤں بیٹھ کر
آپس میں جو الجھ گئے فرقے ادھیڑ دوں
دم گھٹ رہا ہے آج تو پوشاکِ عمر میں
جی چاہتا ہے زیست کے بخیے ادھیڑ دوں
یہ تینوں اشعار ’ادھیڑ دوں‘ کی بالکل نئی ردیف پر ہیں جس پر کومل سے پہلے شاید ہی کسی شاعر نے غزل کہی ہو۔ ’ادھیڑنا‘ کا لفظ سلائی کے تناظر میں استعمال ہوا ہے مگر وہ سماجی، فرقہ وارانہ اور وجودی الجھنوں کو کھولنے کی علامت بن گیا ہے۔ تیسرے شعر میں تو وجودی گھٹن اس قدر شدید ہے کہ وہ پوری زندگی کی ’پوشاک‘ ہی ادھیڑ ڈالنا چاہتی ہیں۔
Published: undefined
’کچھ نہیں بنا‘ کی انوکھی ردیف میں اشعار بھی دیکھیے
اب قہقہوں کے ساتھ کریں گے علاجِ عشق
ہم مدتوں اداس رہے، کچھ نہیں بنا
---
جس روز بے ادب ہوئے، مشہور ہو گئے
جب تک سخن شناس رہے، کچھ نہیں بنا
یہاں کومل معاشرتی اقدار پر طنز کرتی ہیں کہ جو شخص شائستہ اور سخن شناس رہا، اس کا کچھ نہ بنا، اور جو بے ادب ہوا، وہی مشہور ہو گیا۔ یہ موجودہ سوشل میڈیا کلچر کی بھی عکاسی ہے۔
Published: undefined
یہ جنگ ہار نہ جائے سپاہ، قید میں ہے
غلام تخت پہ قابض ہیں شاہ قید میں ہے
ترے حقوق کی کوئی نہیں ضمانت اب
غریب شہر، ترا خیر خواہ قید میں ہے
یہ اشعار موجودہ پاکستانی سیاسی صورتحال پر براہ راست تبصرہ ہے۔ ’غلام تخت پہ قابض‘ اور ’شاہ قید میں‘ کا تضاد حالات کی تلخ حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے۔
ترے غرور سے بڑھ کر مری انا ہے مجھے
تو پوچھتا ہے محبت کا مجھ سے۔۔ جا نہیں کی
یہ شعر کومل جوئیہ کی شخصیت کا خلاصہ ہے۔ وہ ایک ایسی معشوقہ ہے جو روتی نہیں، للکارتی ہے۔
انا پہ وار کے پھینکے ہیں ایسے ویسے بہت
مرا غرور سلامت تمہارے جیسے بہت
Published: undefined
کومل جوئیہ کی زبان سادہ لیکن گہری کاٹ لئے ہوئے ہے۔ وہ مشکل تراکیب سے پرہیز کرتی ہیں مگر خیال کی گہرائی برقرار رکھتی ہیں۔ ان کی شاعری کی بڑی خوبی نئے استعاروں اور نئی ردیفوں کا استعمال ہے۔ ’ادھیڑ دوں‘، ’کچھ نہیں بنا‘، ’بولنے والے‘ وغیرہ ایسی ردیفیں ہیں جو ان سے پہلے عموماً استعمال نہیں ہوئیں۔
ان کی شاعری میں طنز اتنا تیز ہے کہ زیر لب تبسم کے ساتھ ساتھ چبھتا بھی ہے۔ وہ نہ صرف مرد کے غرور پر بلکہ مذہبی منافقت، سیاسی بے ایمانی اور سماجی ریاکاری پر بھی ضرب لگاتی ہیں۔
پروین شاکر کے بعد پاکستانی اردو شاعری میں خواتین کی جو مضبوط آوازیں ابھری ہیں ان میں فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، تنزیلہ خان، عاطف توقیر اور کومل جوئیہ سرِ فہرست ہیں۔ مگر کومل کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ نہ تو نسائیت کو شعار بناتی ہیں نہ واویلا کرتی ہیں؛ وہ اپنی انا اور اپنے طنز سے مردانہ غلبے کو للکارتی ہیں۔
مت حقارت سے دیکھ دستِ طلب
ہم بھی شامل تھے بادشاہوں میں
Published: undefined
کومل جوئیہ آج کی وہ شاعرہ ہیں جو نہ صرف اپنے وقت کی ترجمان ہیں بلکہ آنے والے وقت کے لیے بھی ایک مضبوط آواز چھوڑ رہی ہیں۔ ان کی شاعری میں درد بھی ہے، ہنسی بھی، غصہ بھی اور پیار بھی۔ مگر سب سے بڑھ کر ان کی انا ہے۔ ایک ایسی انا جو جھکتی نہیں، ٹوٹتی نہیں، بلکہ چمکتی ہے۔
وہ خد و خال مرے فن کی گواہی دیتے
میں سخن کار نہ ہوتی تو مصور ہوتی
Published: undefined
یہ اعتماد، یہ خودداری اور یہ فنکاری ہی کومل جوئیہ کو اردو شاعری کا ایک روشن ستارہ بناتی ہے۔ ان کے کچھ اور اشعار پیش ہیں جو ان کے لہجے کی کاٹ اور کھنک کا نمونہ ہیں۔
منسوب چراغوں سے طرفدار ہوا کے
تم لوگ منافق ہو منافق بھی بلا کے
---
خدا کرے کہ حفاظت سے لوٹ کر آئے
جو اک پرندہ نشانے پہ ہے شکاری کے
---
وہ آنکھ پھوٹے جو نفرت سے باپ کو دیکھے
وہ ہاتھ ٹوٹیں جو اٹھ جائیں اپنی ماؤں پر
یہ پیڑ جھڑنے کو آ جاتے ہیں خزاں رُت میں
میں انحصار کروں کیسے ان کی چھاؤں پر
---
میں اپنے عشق کی وہ اپنی اجنبیت کی
کھڑے ہیں دونوں کے دونوں ہی انتہاؤں پر
---
کہاں میں جاؤں یہ کم صورتی لیے اے شخص
تمہارا دل تو بس آتا ہے اپسراؤں پر
---
تم نے عجلت سی دکھائی ہے مجھے کھونے میں
فالتو شے تھی پڑی رہتی کسی کونے میں
---
اب یہ معلوم ہوا غیر ضروری تھا تمام
عمر گزری ہے جو اسبابِ سفر ڈھونے میں
---
یہ چوٹ اس لئے ہے جان سے عزیز بہت
کسی عزیز کی جانب سے گھاؤ آیا تھا
---
تو شہر میں گنواتا رہا عیب ہمارے
ہم نے تو ترا نقص اچھالا نہیں کوئی
---
تجھ کو بھی چھوڑ کے جائے ترا اپنا کوئی
تو بھی اک روز مکافات کا مطلب سمجھے
---
کبھی وہ دن تھے کہ ٹکتے نہ تھے زمین پہ پیر
اور اب یہ دن ہیں کہ پیروں تلے زمین نہیں
---
یہ شخص اب مرے احباب میں نہیں شامل
مری شکایتیں اس شخص سے کرے نہ کوئی
---
تعلقات کو بس اس مقام تک رکھئے
کسی کو چھوڑنا پڑ جائے تو مرے نہ کوئی
---
جنتر منتر دھاگے شاگے جادد ٹونے والوں نے
تیری خاطر کیا کیا سیکھا تجھکو کھونے والوں نے
---
تمہارے بعد اب کس کو بصارت کی طلب ہو گی؟
مناسب دام مل جائیں تو آنکھیں بیچ سکتی ہوں
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز