عالمی خبریں

وراثت میں برابر کا حصہ، مصری مسیحی خاتون نصر اللہ کی قانونی جنگ

دنیا کے کئی مسلم ممالک ایسے ہیں جہاں خواتین کو وراثت میں حصہ لینے کے لئے قانونی جنگ کرنا پڑتی ہے۔ مصر میں جائداد کی تقسیم کا ایک کیس مسلم دنیا کی خواتین کے لئے مثال بن گیا۔

 ہدا نصراللہ
ہدا نصراللہ 

مصر کے قانون کے مطابق عورت جائداد میں مرد کی نسبت آدھے حصے کی حق دار ہوتی ہے۔ ہدا نصراللہ کے والد کا گزشتہ برس انتقال ہو گیا تھا۔ اب ان کا ملکی ججوں سے سوال ہے کہ ان کے والد نے جو جائیداد چھوڑی ہے، اس کے دو بھائیوں اور اس کے بیچ برابر تقسیم کر دی جائے۔ ہُدا کے بھائیوں نے بھی اپنی بہن کے حق میں گواہی دے دی لیکن ججز ان کی گواہی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

Published: undefined

مصری عدالتوں نے دو بار نصرللہ کے خلاف اور اسلامی وراثتی قوانین کی بنیاد پر بھائیوں کے حق میں فیصلہ دیا ۔ انسانی حقوق کی وکیل 40 سالہ نصراللہ نے اب اس فیصلے کو اعلی عدالت میں چیلنج کر دیا ہے۔ توقع ہے کہ اس ماہ کے آخر میں حتمی فیصلہ آ جائے گا۔

Published: undefined

دراصل ہدا نصراللہ نے اپنا مقدمہ مسیحی عقائد کی بنیاد پر مرتب کیا جس میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جنس سے قطع نظر ورثا برابری کا حق وصول کریں۔ ان کا خیال ہے کہ اس بات کے قوی امکان ہیں کہ عدالت معاشرتی ڈھانچے کا احترام کرے گی۔ نصرللہ کا کہنا ہے کہ دراصل یہ مقدمہ جائداد کے بارے میں نہیں ہے بلکہ سوال ہے کہ اُن کے ساتھ بھی اُن کے بھائیوں جیسا سلوک کیا جائے۔

Published: undefined

مسلم ورلڈ میں جائداد میں برابری کے لئے حقوق نسواں کی علمبرداروں کی جانب سے تحریک نے زور پکڑ رکھی ہے۔ شمالی افریقی ملک تیونس میں گزشتہ برس مساوی حقوق کے ایک بل پیش کیا گیا تھا جس کو خواتین نے خوب سراہا لیکن باقی عرب دنیا میں اس کےخلاف ردعمل سامنے آیا تھا۔

Published: undefined

سنی مسلمانوں میں معتبر حیثیت کے حامل جامع الازہر نے سختی سے تیونسی پیش رفت کو اسلامی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس سے مسلم معاشروں میں عدم استحکام سے پیدا ہو گا۔ جامع الازہر نے اس تجویز کو مسترد کر تو دیا لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کو امید ہے کہ مصر میں صورت حال تبدیل ہو کر رہے گی۔

Published: undefined

نصراللہ کا تعلق مصر کے دس ملین قبطی مسیحی عقیدے سے ہے۔ وہ ایک ایسے مسلم معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ایک ایسا آئین نافذ جس کی اساس اسلامی شریعت ہے۔ مصری قانون قبطی چرچ کو قبطیوں کے ذاتی حیثیت کے معاملات یعنی شادی اور طلاق پر مکمل اختیار دیتا ہے۔ لیکن چرچ کے پاس وراثت کے حقوق پر اختیارات نہیں ہیں۔

Published: undefined

نصراللہ کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی بنیاد پر اپنا مقدمہ چلا رہی ہیں۔ ایک قبطی خاتون کالم نگار کریمہ قبطی کا کہنا ہے کہ نصراللہ کا معاملہ اس معاشرے کے دوہرے امتیازی سلوک کو اجاگر کرتا ہے۔ کریمہ کے مطابق ایک عقیدے کے اصول دوسرے عقیدے کے ماننے والوں پر نافذ نہیں کرنا چاہیے۔

Published: undefined

دسمبر 2018 کے اوائل میں نصراللہ کے والد نے جو کہ ایک کلرک تھے اپنے پیچھے قاہرہ کے ایک کم آمدنی والے علاقے میں چار منزلہ مکان اور بنک میں رقم چھوڑی تھی۔ مصر میں عموماً قبطی مرد اسلامی قوانین سے فائدہ اٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں وہیں نصراللہ کے بھائیوں نے برابری کی تقسیم پر جائداد کو تقسیم کرنے کی خواہش کی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined