علامتی تصویر / اے آئی
رمضان المبارک کا تیسرا عشرہ رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا عشرہ ہے۔ یہ دن عبادت، توبہ اور نیکیوں میں سبقت لے جانے کا وقت ہے۔ اسی عشرے میں صاحبِ نصاب مسلمانوں پر زکوٰت کی ادائیگی فرض ہے، جب کہ صدقہ فطر ہر صاحبِ استطاعت پر واجب ہے۔ ان دونوں عبادات کا مقصد محض انفرادی ثواب نہیں بلکہ اجتماعی بھلائی اور معاشرتی مساوات کا قیام ہے۔
زکوٰت دینِ اسلام کا ایک اہم رکن ہے جو معاشرتی انصاف کا مظہر ہے۔ قرآنِ پاک میں زکوٰت کا ذکر تقریباً 30 مقامات پر نماز کے ساتھ آیا ہے۔ یہ عبادت انفاقِ مال یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا عملی نمونہ ہے۔ زکوٰت کا مقصد دولت کی منصفانہ تقسیم اور سماجی تفاوت کو کم کرنا ہے۔ یہ معاشرتی فلاح کا ذریعہ ہے جس سے غریبوں اور محتاجوں کی مدد ہوتی ہے۔
Published: undefined
معاشی برابری: زکوٰت کے ذریعے دولت کا ارتکاز ختم ہوتا ہے اور امیر و غریب کے درمیان خلا کم ہوتا ہے۔
مساکین کی کفالت: زکوٰت سے غریبوں، یتیموں اور بیواؤں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔
مال میں برکت: زکوٰت دینے سے مال پاک ہوتا ہے اور اس میں برکت پیدا ہوتی ہے۔
معاشرتی استحکام: زکوٰت معاشرتی عدم مساوات کو کم کرتی ہے اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیتی ہے۔
صدقہ فطر: روزے دار کی تکمیل اور مسکین کی امداد
صدقہ فطر رمضان کے روزوں کی قبولیت اور محتاجوں کی مدد کا ذریعہ ہے۔ یہ ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر واجب ہے، چاہے اس پر زکوٰت فرض ہو یا نہ ہو۔ رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر کو روزے کی پاکیزگی اور محتاجوں کی حاجت روائی کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
Published: undefined
غریبوں کی عید میں شمولیت: صدقہ فطر کے ذریعے غرباء کو عید کی خوشیوں میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے۔
مال کی پاکیزگی: یہ روزے میں ہونے والی کوتاہیوں کا کفارہ بھی ہے۔
وقت پر ادائیگی ضروری: صدقہ فطر کی ادائیگی عید سے پہلے ضروری ہے تاکہ ضرورت مند افراد اس سے استفادہ کر سکیں۔
زکوٰت اور صدقہ فطر: فلاحی ریاست کا تصور
اسلام نے زکوٰت اور صدقہ فطر کے ذریعے ایک فلاحی معاشرہ تشکیل دینے کا عملی نمونہ پیش کیا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہ جائے بلکہ گردش میں رہے اور مستحقین تک پہنچے۔
معاشی ناہمواری کم کرنے کے لیے صاحبِ نصاب پر زکوٰت فرض کی گئی ہے تاکہ غریب، محتاج، مساکین اور یتیموں کی کفالت ہو سکے۔
صدقہ فطر کے ذریعے عید کے موقع پر ہر غریب شخص کو کھانے پینے کے انتظام میں مدد ملتی ہے۔
Published: undefined
غربت میں کمی اور ضرورت مندوں کو ریلیف ملتا ہے۔
معاشرتی ہم آہنگی اور مساوات فروغ پاتی ہے۔
دولت کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوتی ہے۔
فلاحی ریاست کا تصور تقویت پاتا ہے۔
Published: undefined
آج کے دور میں زکوٰت اور صدقہ فطر کی صحیح تقسیم کے لیے منظم نظام ضروری ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی زکوٰت اور صدقہ فطر مستحقین تک پہنچانے کے لیے معتبر فلاحی اداروں کا انتخاب کریں۔ مساجد، مدارس اور فلاحی تنظیمیں اس کام میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں۔
صدقہ فطر کی شرح مقرر ہے، جو گندم، جو، کھجور یا ان کے برابر قیمت میں ادا کی جاتی ہے۔
رمضان المبارک میں زکوٰت اور صدقہ فطر کی ادائیگی نہ صرف ایک مذہبی فریضہ ہے بلکہ یہ معاشرتی فلاح و بہبود کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ صاحبِ حیثیت افراد کو چاہیے کہ اس بابرکت عشرے میں اپنی زکوٰت اور صدقہ فطر ادا کر کے محروم طبقات کو خوشیوں میں شریک کریں۔ یہی عمل ایک عادلانہ اور مساوات پر مبنی معاشرہ کی تشکیل میں معاون ثابت ہوگا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined