پارلیمنٹ میں پیش 130ویں آئینی ترمیمی بل سے 251 اراکین پارلیمنٹ کی رکنیت خطرے میں!
’اے ڈی آر‘ کی رپورٹ کے مطابق موجودہ لوک سبھا کے 543 اراکین میں سے 251 یعنی 46 فیصد اراکین پر مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ ان میں سے 25 سے زائد کو قصوروار بھی قرار دیا جا چکا ہے۔

سنگین مجرمانہ معاملات میں گرفتار ہونے والے وزیر اعظم، مرکزی وزیر، وزیر اعلیٰ اور ریاستی وزیر کے لیے مرکزی حکومت نے بدھ (20 اگست) کو لوک سبھا میں ایک نیا بل پیش کیا۔ بل کے مطابق اگر 30 روز سے زائد یہ لوگ حراست میں رہتے ہیں تو 31ویں روز انہیں عہدہ سے برطرف کر دیا جائے گا۔ حالانکہ ایوان میں ہنگامے کے درمیان بل جے پی سی کو بھیج دیا گیا ہے۔ اگر یہ بل پاس ہوتا ہے تو ان اراکین پارلیمنٹ کی رکنیت خطرے میں آ جائے گی جن کے خلاف پہلے سے ہی مجرمانہ مقدمات درج ہیں یا قصوروار قرار دیے جا چکے ہیں۔
واضح ہو کہ دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال 6 ماہ اور تمل ناڈو کے وزیر وی سینتھل بالاجی 241 دنوں تک حراست میں رہے تھے۔ کیجریوال اپنے عہدہ پر رہتے ہوئے گرفتار ہونے والے ملک کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے۔ ’اے ڈی آر‘ کی رپورٹ کے مطابق موجودہ لوک سبھا کے 543 اراکین میں سے 251 یعنی 46 فیصد اراکین پر مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ ان میں سے 25 سے زائد کو قصوروار بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ کُل 233 اراکین پارلیمنٹ (43 فیصد) نے اپنے خلاف مجرمانہ معاملے کا اعلان کیا تھا، جبکہ 2019 میں یہ اعداد و شمار 233 (43 فیصد)، 2014 میں 185 (34 فیصد)، 2009 میں 162 (30 فیصد) اور 2004 میں 125 (23 فیصد) تھے۔
اے ڈی آر کی رپورٹ میں مذکور ہے کہ 18ویں لوک سبھا میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آنے والی بی جے پی کے 240 اراکین پارلیمنٹ میں سے 94 (39 فیصد) پر مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ کانگریس کے 99 اراکین پارلیمنٹ میں 49 (49 فیصد) اور سماجوادی پارٹی کے 37 اراکین پارلیمنٹ میں سے 21 (56 فیصد) پر مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ ٹی ایم سی کے 29 میں سے 13 (44 فیصد)، ڈی ایم کے کے 22 میں سے 13 (59 فیصد)، ٹی ڈی پی کے 16 میں سے 8 (50 فیصد) اور شیو سینا کے 7 میں سے 5 (71 فیصد) پر مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے 63 (26 فیصد)، کانگریس کے 32 (32 فیصد)، سماجوادی پارٹی کے 17 (46 فیصد)، ٹی ایم سی کے 7 (24 فیصد)، ڈی ایم کے کے 6 (27 فیصد)، ٹی ڈی پی کے 5 (31 فیصد) اور شیو سینا کے 4 (57 فیصد) اراکین پارلیمنٹ کے خلاف سنگین مجرمانہ معاملے درج ہیں۔
ان 3 بلوں میں کیا ہے خاص؟
مرکز کے زیر انتظام حکومت (ترمیمی) بل 2025: مرکز کے زیر انتظام حکومت ایکٹ 1963 (1963 کا 20) میں سنگین مجرمانہ الزامات کی وجہ سے گرفتار اور حراست میں لیے گئے وزیر اعلیٰ یا وزیر کو ہٹانے کا کوئی التزام نہیں ہے۔ اس لیے حکومت کو لگتا ہے کہ مرکز کے زیر انتظام حکومت ایکٹ 1963 کی دفعہ 45 میں تبدیلی کرنے کی ضرورت ہے۔
آئین (130ویں ترمیم) بل 2025: ہندوستانی آئین میں سنگین مجرمانہ معاملوں میں گرفتار اور حراست میں لیے گئے وزیر کو ہٹانے کا التزام نہیں ہے۔ ایسے معاملوں میں وزیر اعظم یا یونین کونسل آف منسٹرز کے کسی وزیر، ریاستوں اور قومی راجدھانی کے علاقہ دہلی کے وزیر اعلیٰ یا یونین کونسل آف منسٹرز کے کسی وزیر کو ہٹانے کے لیے آئین کے آرٹیکلز 75، 164 اور 239 اے اے میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔
جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) بل 2025: فی الحال جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 (2019 کا 34) کے تحت سنگین مجرمانہ معاملوں میں گرفتار اور حراست میں لیے گئے وزیر اعلیٰ یا وزیر کو ہٹانے کے لیے کوئی التزام درج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے معاملوں میں ان کے لیے جموں و کشمیر تنظیم نو 2019 کے سیکشن 54 میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔