فکر و خیالات

کیا گنگا یہ نہیں سوچے گی کہ میرا پریاگ کہاں کھو گیا؟

اس بار جب گنگا نرمدا کے کنارے لگے میلے کو دیکھے گی تو کیا سوچے گی کہ میرا پریاگ کہاں کھو گیا؟ گنگا جانتی ہے کہ سنگم کوئی تقریب نہیں، بلکہ یہ کئی طرح کی زندگیوں کے میل کا نام ہے

<div class="paragraphs"><p>آئی اے این ایس</p></div>

آئی اے این ایس

 
IANS

شیوراتری کے ساتھ کمبھ میلے کا باضابطہ اختتام ہو گیا۔ حکومت نے سنگم میں ہونے والے اسنان کے اعداد و شمار پیش کر کے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح اس بار ایک شاندار میلے کا انعقاد ہوا۔ ایسا جوش و خروش پیدا کیا گیا کہ سب نے اسے قبول کر لیا، جیسے کوئی حیرت انگیز تجربہ ہو۔ مگر بھیڑ میں دبنے والوں کی آواز کہیں کھو گئی۔ ایسا برتاؤ کیا گیا کہ وہ حادثہ اجتماعی یادداشت سے ہی مٹ جائے۔ تب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میلہ کیا ہوتا ہے؟ سنگم کا کیا کوئی آغاز اور اختتام ہوتا ہے؟ کیا کسی دریا میں غسل کرنے سے وہ سنگم کا اسنان بن جاتا ہے؟ سنگم کیا ہے؟

یہ سوال میرے ذہن میں اُس وقت ابھرا جب میں نرمدا کے کنارے سفر کر رہی تھی۔ مدھیہ پردیش کے بڑونی ضلع کے راج گھاٹ سے آگے بڑھیں تو چار پانچ دن تک نرمدا نظر نہیں آتی۔ یہ علاقے جھاڑیوں سے بھرے ہوتے ہیں، جہاں کبھی کھڑی چٹانوں پر، تو کبھی ڈھلواں راستوں پر سنبھل کر چلنا پڑتا ہے۔ یہاں بھیل اور بھیلالا قبائل کے چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں۔ اب تو باندھ کی وجہ سے پچھلے پانی کے ذخیرے نظر آتے ہیں، مگر نرمدا کی راہ سے گزرنا آج بھی ایک آزمائش ہے۔

Published: undefined

ان علاقوں میں مسافروں سے لُوٹ مار کے قصے سنائے جاتے تھے، حالانکہ حالیہ برسوں میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ ایک شام ہم تین چار ساتھی سفر کر رہے تھے۔ سورج ڈھلنے لگا تھا اور سایے لمبے ہو رہے تھے۔ تبھی کچھ چھوٹی بچیاں، جو میلی سی فراکیں پہنے ہوئے تھیں، اپنی ہتھیلی پر مکئی کی روٹی اور لال مرچ کی چٹنی رکھ کر زور سے کہنے لگیں، ’’یہیں رک جاؤ، کھا لو!‘‘ وہ ہمیں اپنے گھروں میں آرام کے لیے بلا رہی تھیں۔ وہاں ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی۔ ہم کچھ دیر رکے، کھانے کا لطف لیا اور محبت کی اس دولت کو اپنے دل میں سمیٹ کر آگے بڑھ گئے۔ پیچھے سے ان کی آوازیں اب بھی سنائی دے رہی تھیں۔

آگے بڑھتے ہوئے ہم مہاراشٹر کی سرحد کے قریب پہنچے، جہاں ایک اجنبی گاؤں میں ایک شخص کے گھر رات گزارنے کی درخواست کی۔ وہاں کے لوگ ہماری زبان کو مکمل طور پر نہیں سمجھتے تھے، لیکن تھوڑی ہی دیر میں ہمارے لیے چارپائی پر بستر بچھا دیا گیا۔ کھانے کے لیے کھچڑی دی گئی۔ کسی نے کچھ نہیں پوچھا، نہ کوئی تعارف، نہ کوئی شناختی کارڈ مانگا۔

Published: undefined

گجرات میں نرمدا کے کنارے اقبال بھائی نے ہمارے لیے سویّاں بنائیں۔ کسی نے کسی سے کچھ نہیں پوچھا، لیکن یہ ایک بے نام محبت کا سنگم تھا۔ تو کیا یہی میلہ نہیں تھا؟ کیا خلوص اور بے لوثی سے بھرا یہ اجتماع سنگم نہ تھا؟

کہتے ہیں کہ سال میں ایک بار گنگا، نرمدا سے ملنے آتی ہے، اسے ’گنگا سپتمی‘ کہا جاتا ہے۔ اس بار جب گنگا نرمدا کے کنارے میلے کو دیکھے گی، تو کیا وہ یہ نہیں سوچے گی کہ اس کا پریاگ کہاں کھو گیا؟ پریاگ کا مطلب ہی سنگم ہے۔ چینی مسافر ہُوئن سانگ نے پریاگ کا خوبصورت ذکر کیا تھا—بدھ، جین، ویدانت اور شکتی عقائد کا میل، گنگا اور جمنا کا سنگم۔

Published: undefined

الہ آباد میں پریاگ کی روح ہمیشہ زندہ رہی۔ آنند بھون کے دالانوں نے اسے مزید جِلا بخشی۔ گرجا گھروں نے گاندھی کی راکھ کے وسرجن کے موقع پر زائرین کے لیے اپنے دروازے کھولے۔ 2019 میں میں نے سنگم کنارے غروبِ آفتاب دیکھا۔ اذان کی آواز گونج رہی تھی، مہاجر پرندے اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ رہے تھے، مندروں کے گھنٹے بج رہے تھے۔ اب الہ آباد وہ نہیں رہا، لیکن اب بھی لوگ ذات و مذہب سے بالاتر ہو کر وہاں کھانے بانٹتے ہیں۔

گنگا بذاتِ خود کئی سنگموں کا مجموعہ ہے۔ جڑگنگا، گاڑگنگا، بھلگانہ، الکنندا، منداکنی، بھاگیرتھی—یہ سب چھوٹی بڑی ندیاں اسی کا حصہ ہیں۔ اسی لیے وہ بہتی ہے۔ کسی ایک دھارے کے بغیر وہ سکڑ جائے گی۔

Published: undefined

بھارت بھی تو ایسا ہی ایک سنگم ہے۔ جہاں ہزاروں سال سے انسانیت کا میلہ لگا ہوا ہے۔ جہاں سنگم میں ڈبکی لگانے کا مطلب ہوتا ہے کہ مہاتما گاندھی کی دعا میں شامل ہونا، ایک غریب کی جھونپڑی میں جا کر عاجزی سیکھنا۔ وہ 15 ہزار صفائی کارکن جو پورے کمبھ کے دوران علاقے کو صاف رکھتے ہیں، وہی اصل سنگم ہیں۔ اگر گاندھی جی ہوتے تو روز اپنی صفائی خود کرتے، یہی ان کا سنگم اسنان ہوتا، یہی انہیں نجات دیتا۔

لیکن آج کے اشتہاری دور میں ان سوالات کی جگہ کہاں ہے؟ بس تصویریں اپ لوڈ ہونی چاہئیں۔ شاید مصنوعی ذہانت ایک دن موکش (نجات) اور سورگاروہن (جنت میں داخلہ) کا بھی فارمولہ بنا دے! مگر گنگا جانتی ہے کہ سنگم کوئی تقریب نہیں، بلکہ اَنَنت (لامحدود) ہے۔ یہ کسی ایک دھارے کا نام نہیں، بلکہ کئی دھاروں کا سنگم ہے۔ وہ پسینے سے شرابور محنت کشوں کا میل ہے۔ وہ رنگریز، جولاہے، مچھیروں، چرواہوں، نائیوں، دھوبیوں اور دستکاروں کے پسینے کا سنگم ہے۔ وہ لوگ جو صدیوں سے مراعات یافتہ طبقے سے باہر تھے، وہ ریداس کے بیگم پورہ کے انتظار میں ہیں، جہاں ہر لمحہ سنگم ہے—ایک ایسا سنگم، جہاں روح اور خدا آپس میں مل جاتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined