فکر و خیالات

’زبان بند کرنا آسان نہیں‘، ہندی کی اردو جڑوں پر قدغن ہندوستان کی لسانی روح کے لیے خطرہ کیوں ہے؟... حسنین نقوی

وزارت اطلاعات و نشریات نے کچھ چینلز کو ہدایت دی کہ اردو الفاظ کے استعمال کو کم کریں اور ’خالص‘ ہندی الفاظ کے استعمال کو یقینی بنانے کے مقصد سے ’لینگویج ایکسپرٹ‘ مقرر کریں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

’زبانیں تو اسے بولنے والوں کی ملکیت ہوتی ہیں، حکومتوں یا مذاہب کی نہیں۔‘ مرکزی حکومت کی جانب سے بڑے ہندی نیوز چینلز کو نشریات میں اردو الفاظ کے استعمال پر نوٹس جاری کیے جانے کے بعد ملک میں زبان، تاریخ اور شناخت پر ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ یہ قدم ہندی اور اردو زبان کے درمیان قدیم کشمکش کو ایک بار پھر سامنے لاتا ہے اور لسانی پالیسی، سماجی ہم آہنگی و سیاسی محرکات پر سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔

Published: undefined

نوٹس، جس نے طوفان برپا کیا

رواں ہفتہ اطلاعات و نشریات کی وزارت نے بڑے ہندی چینلز، مثلاً ٹی وی 9-بھارت ورش، آج تک، اے بی پی، زی نیوز اور ٹی وی 18 کو نوٹس جاری کیا کہ ان کی نشریات میں اردو الفاظ کا ’بے جا استعمال‘ ہوتا ہے، جو مجموعی الفاظ کا تقریباً 30 فیصد ہے۔ وزارت نے ان چینلز کو ہدایت دی کہ اردو الفاظ کے استعمال کو کم کریں اور ’خالص‘ ہندی الفاظ کے استعمال کو یقینی بنانے کے مقصد سے ’لینگویج ایکسپرٹ‘ مقرر کریں۔

Published: undefined

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزارت کے نوٹس میں خود ایسے الفاظ استعمال ہوئے جن کے ماخذ اردو ہیں، اور اس حد تک عام ہو چکے ہیں کہ لوگ انہیں غیر مان کر الگ نہیں کرتے۔ مثلاً غلط، شکایت، تحت، طور، دنوں، خلاف، استعمال وغیرہ۔ ایسے میں یہ سوالات اہم ہو جاتے ہیں کہ زبان کی ملکیت کس کے پاس ہے؟ کیا حکومتیں فیصلہ کر سکتی ہیں کہ کون سے الفاظ زندہ رہیں اور کون سے مر جائیں؟ اور یہ ہندوستان کی کثرت میں وحدت کی روایت کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟

Published: undefined

ہندی، اردو اور ہندوستانی: ایک مشترکہ تاریخ

یہ تنازعہ اس غلط مفروضے پر کھڑا ہے کہ ہندی اور اردو 2 الگ اور مذہب سے جُڑی زبانیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ایک ہی لسانی خاندان کے جُڑواں لہجے ہیں۔

  • بنیاد: دونوں دہلی اور نواحی علاقوں کی بولی ’کھڑی بولی‘ سے ابھریں، جسے قدیم زمانے میں ’ہندوی‘ یا ’ہندوستانی‘ کہا جاتا تھا۔

  • مشترکہ ذخیرۂ الفاظ: ہندی زبان رسمی سطح پر سنسکرت اور اردو فارسی-عربی پر انحصار کرتی ہے، لیکن بول چال، محاورے اور قواعد میں دونوں زبانیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔

  • تاریخی استعمال: ماہر لسانیات طارق رحمن بتاتے ہیں کہ اٹھارہویں صدی تک مصنّفین و ادیب نے اس زبان کے لیے ہندی، ہندوستانی، ریختہ، اردو کو باری باری استعمال استعمال کیا۔ حتیٰ کہ خدائے سخن کا خطاب حاصل کرنے والے مشہور اردو شاعر میر تقی میر بعض اوقات اپنے اشعار کو ’ہندی‘ کہہ دیتے تھے۔

زبانوں کی یہ مصنوعی علیحدگی جدید دور کی پیداوار ہے، جس کو نوآبادیاتی دور کی تقسیم پر مبنی پالیسیوں نے تیار کیا اور بعد میں فرقہ وارانہ سیاست نے ہوا دی۔

Published: undefined

نوآبادیاتی ورثہ اور لسانی سیاست

انگریزوں نے ’بانٹو اور راج کرو‘ کی پالیسی کے تحت ہندی-اردو تقسیم کو مضبوطی عطا کی۔ مثلاً

  • 1837: فارسی کو ہٹا کر عدالتوں میں ’ہندوستانی‘ (فارسی رسم الخط) نافذ کیا گیا۔

  • 1860 کے بعد: ہندو اصلاحی گروپوں نے دیوناگری ہندی کی مہم چلائی جبکہ مسلم اشرافیہ نے اردو کا دفاع کیا۔

  • 1900: متحدہ صوبہ جات میں ہندی-اردو تنازعہ زبان اور مذہب کے ساتھ جُڑ گیا، یعنی ہندی ہندوؤں سے اور اردو مسلمانوں سے جوڑ دی گئی۔

جیسا کہ اسکالر آلوک رائے نے ’ہندی نیشنلزم‘ میں بحث کی ہے، یہی وہ لمحہ تھا جب زبان محض اظہار کا وسیلہ نہ رہی بلکہ شناخت، وفاداری اور سیاست کا نشان بن گئی۔ دیکھا جائے تو اطلاعات و نشریات کی وزارت کا حالیہ نوٹس نوآبادیاتی ورثے کی گونج ہے، نہ کہ اس سے آگے بڑھنے کی کوشش۔

Published: undefined

’خالص‘ ہندی کی مشکلات

’خالص‘ ہندی کی بات کرنا نہ صرف ناممکن ہے بلکہ تاریخی طور پر مصنوعی بھی ہے۔ ہندی نے صدیوں میں مختلف زبانوں سے اثرات قبول کیے ہیں۔ مثلاً

  • فارسی و عربی سے: دنیا، انسان، محبت، ایمان، وقت، طاقت، امن۔

  • ترکی سے: توپ، قلعہ، سپاہی۔

  • پرتگالی سے: صابن، میز، الماری۔

  • انگریزی سے: بس، اسٹیشن، ٹکٹ، موبائل، کمپیوٹر۔

اگر اردو کو نکالنا ہے تو پھر ہندی سے یہ سب بھی نکالے جائیں گے؟ اس طرح یہ منطق اپنے آپ رَد ہو جاتی ہے۔

جیسا کہ شاعر و موسیقار گلزار نے ایک بار کہا تھا ’’ہندوستانی نہ سنسکرت ہے نہ فارسی، یہ وہ ہے جیسا لوگ بولتے اور محسوس کرتے ہیں۔ اسے تقسیم کرنا برصغیر کی روح کو زخمی کرنا ہے۔‘‘

Published: undefined

عوامی زندگی میں ہندوستانی

بعض سرکاری کوششوں کے باوجود عام لوگ آج بھی فطری طور پر ہندوستانی بولتے ہیں، جو کہ ہندی اور اردو کا حسین امتزاج ہے۔ مثلاً

  • فلمیں: ’مغلِ اعظم‘ سے ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ اور ’گلی بوائے‘ تک، سبھی کا مکالمہ ہندوستانی میں ہے۔

  • میڈیا و سیاست: نیوز اینکر، اشتہار نویس اور سیاست داں عوام سے جُڑنے کے لیے یہی مرکب زبان، یعنی ’ہندوستانی‘ استعمال کرتے ہیں۔

  • مذہب و ادب: بھجن، قوالی، صوفی کلام ایک دوسرے کے ذخیرے سے آزادانہ استفادہ کرتے ہیں۔ کبیر کے دوہے فارسی و عربی الفاظ سے بھرے ہیں، اور غالب کی غزلوں میں سنسکرت الفاظ خوب ملتے ہیں۔

Published: undefined

زبان پر پہرہ یعنی ثقافت پر پہرہ

یہ اس طرح کا پہلا تنہا معاملہ نہیں ہے۔ ریاست لوگوں کو بتا رہی ہے کہ کیا کھائیں، کیا پہنیں، کس کی پوجا کریں، اور اب یہ بھی کہ کیا بولیں۔

  • سیاسی تناظر: اردو کو ’غیر ملکی‘ یا ’مسلمانوں کی زبان‘ کہہ کر حکومت اکثریتی بیانیے کو فروغ دیتی ہے۔

  • قانونی پہلو: آئین کا آرٹیکل (a)(1)19 اظہارِ رائے کی آزادی دیتا ہے۔ الفاظ پر پابندی آمرانہ مداخلت ہے۔

  • تاریخی مثالیں: نازی جرمنی نے ’خالص جرمن‘ کے نام پر عبرانی و یدیش الفاظ ہٹائے۔ ترکی میں اتاترک نے فارسی و عربی الفاظ ختم کر دیے، جس سے تہذیبی تسلسل ٹوٹ گیا۔

ہندوستان اگر اسی راہ پر چلتا ہے تو اپنی تکثیری روح سے محروم ہو جائے گا۔

Published: undefined

نوٹس کی سب سے بڑی ستم ظریفی

وزارت کا اردو مخالف سرکلر خود اردو ماخذ الفاظ سے بھرا ہوا تھا۔ اگر صرف ’سنسکرت ہندی‘ میں ہوتا تو شاید سمجھنا ہی مشکل ہوتا۔ مثال کے طور پر ’شکایت‘ کے بجائے ’ابھیوگ‘، ’استعمال‘ کے بجائے ’پریوگ‘ اور ’غلط‘ کے بجائے ’استیہ‘ یا ’اپریہ‘۔ یہی وہ مصنوعی ہندی تھی جس کی وجہ سے ’دوردرشن‘ کی پرانی خبروں کو لوگ اجنبی محسوس کرتے تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہندی بغیر اردو کے ادھوری ہے، اور اردو بغیر ہندی کے ناممکن۔ دونوں ایک دوسرے کے دم سے زندہ ہیں۔

Published: undefined

ہندوستان کا لسانی مستقبل

ہندوستان میں 19,500 سے زائد مادری زبانیں اور آئین کی آٹھویں شیڈول میں 22 سرکاری زبانیں درج ہیں۔ اس کی طاقت یکسانیت میں نہیں بلکہ تنوع میں ہے۔ زبانوں پر پہرہ اس تنوع کو کمزور کر سکتا ہے۔ جیسا کہ مورخ سنیل کھلنانی نے ’دی آئیڈیا آف انڈیا‘ میں لکھا ہے ’’ہندوستان کی اصل طاقت تنوع کو اپنانے میں ہے، مٹانے میں نہیں۔‘‘

Published: undefined

عوام کو بولنے دیں

زبان وقت کے ساتھ خود ارتقا پذیر ہوتی ہے۔ یہ حکومتوں یا مذہبی اداروں کی نہیں، بولنے والوں کی میراث ہے۔ اردو الفاظ کے استعمال پر چینلز کو نوٹس دینا دراصل لسانی نہیں بلکہ سیاسی خوف کی علامت ہے۔ ہندوستان کی رنگین اور متنوع کہانی کو یک رنگ بنانے کی کوشش ہے۔ لیکن ہندوستان کی زبان ہمیشہ رنگین رہی ہے، ہر گوشے سے آئے الفاظ سے بھری ہوئی۔

Published: undefined

ہندی کو اردو سے الگ کرنا گویا اس کی شاعری، موسیقی اور تمازت چھین لینا ہے۔ یہ فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ’ہندوستانی‘ کبھی آزادی کے متوالوں کی زبان تھی، گاندھی کی دعاؤں، بھگت سنگھ کے نعروں اور نہرو کی تقریروں کی زبان۔ جیسا کہ فیض احمد فیض نے کہا تھا ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘... لوگ وہ زبان بولتے رہیں گے، جو کہ انہی کی ہے، یعنی ہندی-اردو، ہندوستانی... یہی ہندوستان کی زبان ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined