بہار میں جرائم پر نتیش حکومت کے خلاف کانکریس کا مظاہرہ / آئی اے این ایس
بہار میں اس سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ دیوالی 22 اکتوبر کو ہے اور اس کے ایک ہفتے بعد چھٹھ، اس لیے قوی امکان ہے کہ انتخابات ستمبر کے آخر یا اکتوبر کے آغاز میں منعقد ہوں۔ نئی اسمبلی کا قیام 22 نومبر سے پہلے ہونا ضروری ہے۔ اس تناظر میں مرکزی وزیر داخلہ اور چیف الیکشن کمشنر کے ریاستی دورے کی توقع کی جا رہی ہے، جس کے ساتھ ہی ریاست میں سیاسی گٹھ جوڑ اور سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں۔
سال کی شروعات میں بی جے پی اس خوش فہمی میں تھی کہ وہ تنہا انتخابات جیت جائے گی، مگر اب اس کا اعتماد متزلزل نظر آ رہا ہے۔ پہلے لالو پرساد اور بعد میں ان کی بیوی رابڑی دیوی کی حکومتوں (1990–2005) کو ’جنگل راج‘ کہہ کر عوام کو یاد دلانا بی جے پی کا پرانا ہتھیار رہا ہے، مگر اب یہ ہتھیار کند ہو چکا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ 2005 کے بعد سے، چند مہینوں کو چھوڑ کر، پچھلے 20 سالوں سے این ڈی اے کی ہی حکومت رہی ہے اور موجودہ حالات کو ’جنگل راج 2‘ کہا جا رہا ہے۔ خصوصاً گزشتہ چند ماہ میں دن دہاڑے ڈکیتی، قتل، خواتین کے اغوا اور اسلحے کی نمائش جیسے جرائم نے عوامی اعتماد کو شدید متاثر کیا ہے۔
Published: undefined
اپوزیشن ان بدامنی کے واقعات کو اجاگر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی۔ 2 جون کو کانگریس رہنما الکا لامبا پٹنہ آئیں اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صرف پچھلے پندرہ دنوں میں خواتین پر تشدد اور نابالغ بچیوں کے قتل کی بڑھتی وارداتوں کی طرف توجہ دلائی۔ مثلاً مظفرپور میں پانچویں کلاس کی ایک بچی کے اغوا، اجتماعی زیادتی اور بہیمانہ قتل کا واقعہ، چھپرا میں اسکول سے لوٹتی بچی کے ساتھ زیادتی اور قتل، مغربی چمپارن میں ڈھائی سالہ بچی کے ساتھ درندگی اور ارریہ، سیتامڑھی و مونگیر جیسے اضلاع میں کم عمر بچیوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی جیسے واقعات سامنے آئے۔ ان سنگین واقعات کے باعث عوام میں شدید غصہ ہے اور بی جے پی کو پسپائی اختیار کرنی پڑی ہے۔
پارٹی نے دفاع میں کہا کہ حکومت روزگار کے مواقع پیدا کر رہی ہے اور 1250 خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لیے پبلک سروس کمیشن کے امتحانات کا حوالہ دیا۔ مگر جب پوچھا گیا کہ بی جے پی اور وزیر اعظم نے ایک لاکھ آئی ٹی ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا تھا تو پھر آئی ٹی کونکلیو کیوں نہیں ہو رہا، تو ریاست کے آئی ٹی وزیر نے صرف سائبر فراڈ کے خلاف مہم کا ذکر کر کے بات گول کر دی۔
Published: undefined
دہلی میں 24 مئی کو نیتی آیوگ کی میٹنگ ہوئی تھی جس میں نہ تو وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور نہ ہی ان کے نائب شریک ہوئے، حالانکہ اگلے ہی دن وہ وزیر اعظم کی سربراہی میں این ڈی اے وزرائے اعلیٰ کی میٹنگ میں موجود تھے۔ اسی ہفتے سی ووٹر کے ایک سروے نے بی جے پی کی پریشانی بڑھا دی، جس میں 36.9 فیصد لوگوں نے تیجسوی یادو کو پسندیدہ وزیر اعلیٰ قرار دیا، جب کہ نتیش کمار کو صرف 18.4 فیصد ووٹ ملے۔
ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی عوامی کشش بھی ماند پڑتی دکھائی دے رہی ہے، کیونکہ عوام اب ان کے ادھورے وعدوں کو یاد رکھتے ہیں۔ 2015 اور 2019 کے انتخابی منشور میں کیے گئے وعدے اب تک پورے نہیں ہو سکے۔ مرکز کی طرف سے بہار میں صنعتیں لانے میں ناکامی، سرمایہ کاری کے فقدان اور پارلیمنٹ میں بہار کے حق میں آواز نہ اٹھا پانے والے بی جے پی کے ارکانِ پارلیمان پر بھی عوام سوال اٹھا رہے ہیں۔
Published: undefined
ریاست میں صحت کا شعبہ بھی بحران کا شکار ہے۔ مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا نے ایک بار دعویٰ کیا تھا کہ این ڈی اے حکومت میں بہار میں 147 میڈیکل کالج قائم کیے گئے ہیں، حالانکہ اگر ہومیوپیتھک اور آیورویدک اداروں کو بھی شمار کیا جائے، تب بھی حقیقی تعداد بیس کے آس پاس ہے۔ دربھنگہ میڈیکل کالج کے نئے کیمپس کا وزیر اعظم نے 2015 میں وعدہ کیا تھا، جو اب تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ بھاگلپور میں سپر اسپیشلٹی اسپتال چھ ماہ سے تیار ہے لیکن 310 منظور شدہ ڈاکٹروں کی جگہ صرف دس موجود ہیں۔
31 مئی کو پی ایم سی ایچ (پٹنہ میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل) کے باہر ایک اجتماعی زیادتی کا شکار لڑکی کئی گھنٹوں تک ایمبولینس میں تڑپتی رہی، مگر اسے داخل نہیں کیا گیا۔ عوام کے احتجاج اور کانگریس کے دباؤ کے بعد داخلہ ملا، مگر بچی بچ نہ سکی۔ اس واقعے نے حکومت کی کارکردگی پر گہرے سوالات اٹھا دیے۔ دو بی جے پی عہدیداروں نے بھی حکومت پر تنقید کی۔ ریاست کے صحت وزیر مغربی بنگال کی صحت خدمات پر تو تبصرہ کرتے ہیں، لیکن اپنے محکمے کو دیکھنے کا وقت نہیں نکالتے۔
Published: undefined
دربھنگہ میں ایمس بنانے کا منصوبہ بھی بی جے پی-جے ڈی یو کے لیے درد سر بن چکا ہے۔ 2015 میں وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے بجٹ میں اس کا اعلان کیا تھا، لیکن بدعنوانی، زمین مافیا اور سیاسی مداخلت کے باعث یہ منصوبہ تاحال شروع نہیں ہو سکا۔ 2024 میں وزیر اعظم نے اس کا سنگ بنیاد رکھا، جسے اسمبلی انتخابات سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ شروع میں یہ منصوبہ دربھنگہ میڈیکل کالج کے اندر 150 ایکڑ پر بننا تھا، لیکن انتظامیہ صرف 80 ایکڑ زمین دے سکتا تھا۔ باقی زمین کے لیے ہوٹلوں، دکانوں اور قبضہ کی گئی سرکاری زمین کو خالی کرانا تھا، جہاں سرکاری ملازمین نے غیر قانونی کلینک اور لیبارٹریز بنا رکھی ہیں۔ اس مضبوط لابی نے منصوبے کو ناکام بنا دیا۔
آخرکار، دربھنگہ کے مضافاتی علاقے شو بھن گاؤں میں یہ فیصلہ کیا گیا۔ اگست 2024 میں ریاستی حکومت نے زمین مرکزی حکومت کو سونپی، لیکن منصوبے کی لاگت اب بڑھ کر 1700 کروڑ ہو چکی ہے، جو پہلے 1264 کروڑ تھی۔ جب کبھی یہ منصوبہ مکمل ہوگا، اس وقت لاگت کہاں تک پہنچے گی اور کون لوگ فائدے میں ہوں گے، یہ سب اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined