فکر و خیالات

وشو گرو جی چپ کیوں ہیں، کچھ تو بولیے نا!... سہیل انجم

اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی جی بولتے بہت ہیں۔ اور یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ جو بہت زیادہ بولتا ہے وہ بہت کچھ لایعنی اور بے مطلب بولتا ہے۔ ان کی گفتگو میں ضروری باتوں کی گنجائش کم ہوتی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>پی ایم مودی، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

پی ایم مودی، تصویر آئی اے این ایس

 

ابھی چند روز قبل ایک کارٹون نظر سے گزرا۔ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ درمیان میں سینے تک ایک دیوار حائل ہے۔ مودی کے ہونٹوں پر گوتم اڈانی کا ٹیپ چپکا ہوا ہے۔ وہ خاموش ہیں۔ منموہن سنگھ ان کو چھیڑ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنا سب کچھ ہو گیا کب بولو گے۔ میں تو اتنا چپ نہیں رہتا تھا۔ لیکن مودی کے ہونٹوں پر چپکا اڈانی کا ٹیپ ان کو بولنے نہیں دے رہا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ یو پی اے حکومت کے دوران بی جے پی والے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو مونی بابا کہہ کر ان کا مذاق اڑانے کی کوشش کرتے تھے۔ جب نریندرمودی وزیر اعظم بنے تو کہا جانے لگا کہ اب ایک بولنے والا وزیر اعظم آیا ہے۔ لیکن دوستو ایسے بولنے سے کیا فائدہ جو بے مطلب ہو، جس کا کوئی نتیجہ نہ نکلے، جس سے سوالوں کے جواب نہ ملیں۔

Published: undefined

اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی جی بولتے بہت ہیں۔ اور یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ جو بہت زیادہ بولتا ہے وہ بہت کچھ لایعنی اور بے مطلب بولتا ہے۔ ان کی گفتگو میں ضروری باتوں کی گنجائش کم اور غیر ضروری باتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ جب سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں اڈانی سے متعلق بہت سارے سوالات کیے اور وزیر اعظم سے ان کے جواب مانگے گئے تو یہ سمجھا جا رہا تھا کہ وہ کچھ تو جواب دیں گے۔ لیکن انھوں نے تین گھنٹے کی دو تقریروں میں اس مسئلے کو چھوا تک نہیں۔ حالانکہ اس درمیان ایسے متعدد امور سامنے آئے ہیں جن پر ان کو بولنا اور جواب دینا چاہیے۔

Published: undefined

اس سے پہلے بین الاقوامی اداروں نے کیا کہا اس کو جانے دیں، حالیہ دنوں میں ایسے کئی معاملات سامنے آئے ہیں جو جواب کے متقاضی ہیں۔ ان میں سے کم از کم تین معاملے بہت اہم ہیں۔ ایک گوتم اڈانی کا معاملہ، دوسرا بی بی سی کی دستاویزی فلم اور اس کے دفاتر پر چھاپے کا معاملہ اور تیسرا ایک بین الاقوامی سرمایہ کار جارج سوروس کے انکشافات کا معاملہ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ تینوں معاملے باہری دنیا کے لوگوں نے اٹھائے ہیں۔ گوتم اڈانی کے فراڈ کا انکشاف ایک امریکی فرم ہنڈن برگ نے کیا تو گجرات فسادات کے حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک دستاویزی فلم بنا کر وزیر اعظم مودی کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد جارج سوروس نے یہ بیان دے کر کہ اڈانی کے معاملے میں مودی کو دنیا اور پارلیمنٹ کو جواب دینا چاہیے، سرکاری حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔

Published: undefined

جمعرات کو جرمنی میں میونخ سیکورٹی کانفرنس میں آمریت اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں بولتے ہوئے سوروس نے اڈانی بحران پر بھی اظہار خیال کیا اور کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے سوالات کے جوابات دینے ہوں گے۔ ان کے بقول مودی اور بزنس ٹائیکون اڈانی قریبی دوست ہیں۔ ان کی قسمت آپس میں جڑی ہوئی ہے۔ اڈانی انٹرپرائزز نے اسٹاک مارکیٹ میں فنڈ اکٹھا کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اڈانی پر اسٹاک میں ہیرا پھیری کا الزام ہے اور ان کا اسٹاک تاش کے پتوں کی مانند زمین بوس ہو گیا ہے۔ مودی اس موضوع پر خاموش ہیں لیکن انہیں غیر ملکی سرمایہ کاروں اور پارلیمنٹ میں سوالات کا جواب دینا پڑے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اڈانی معاملے سے ہندوستان کی وفاقی حکومت پر مودی کی گرفت نمایاں طور پر کمزور ہو جائے گی اور جمہوری اصلاحات کے لیے دروازے کھل جائیں گے۔ یہ میری سادہ لوحی ہو سکتی ہے لیکن میں ہندوستان میں جمہوریت کی بحالی کی توقع کرتا ہوں۔

Published: undefined

قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جارج سوروس ایک ہنگری نژاد امریکی تاجر، سرمایہ کار اور مخیر شخص ہیں۔ وہ فلاحی ادارے چلاتے ہیں۔ انھوں نے برطانیہ میں ایک انکشاف کرکے بینک آف انگلینڈ کو کافی نقصان پہنچایا اور برطانوی پاؤنڈ کے خلاف شرط لگا کر صرف ایک ماہ میں ڈیڑھ ارب ڈالر کمائے تھے۔ پچھلے کچھ سالوں میں انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے تحت ہندوستان میں آمریت کے عروج اور جمہوری اداروں کے کمزور ہونے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ 2020 میں داؤس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان کو سب سے بڑا اور بدترین دھچکا لگا ہے جہاں جمہوری طور پر منتخب نریندر مودی ایک ہندو قوم پرست ریاست بنا رہے ہیں۔

Published: undefined

مودی حکومت نے جہاں بی بی سی کی دستاویزی فلم میں لگائے گئے الزامات کا کوئی جواب نہیں دیا، البتہ بعد میں دہلی اور ممبئی میں اس کے دفاتر میں سروے کیا اور اڈانی معاملے پر چپ رہنا بہتر سمجھا وہیں انہون نے جارج سوروس کے بیان پر جارحانہ جوابی بیان دینا ضروری سمجھا۔ لیکن سوروس کو جواب دینے کے لیے اسمرتی ایرانی کو اتارا گیا جو سوالوں کے جواب دینے کے بجائے یہ کہہ کر نکل گئیں کہ یہ ہندوستان اور مودی حکومت کو کمزور کرنے کی بین الاقوامی سازش ہے اور پوری ہندوستانی قوم کو اس کا منہ توڑ جواب دینا چاہیے۔

Published: undefined

اس حکومت نے ایک وطیرہ بنا لیا ہے کہ جب بھی کسی دوسرے ملک سے ہندوستان کے بارے میں کوئی ایسا بیان آئے جس سے حکومت کو پریشانی ہو تو اسے بین الاقوامی سازش قرار دے دیا جائے اور یہ بھی کہا جائے کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ اس میں کسی دوسرے ملک کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے انسانی حقوق کی پامالی کی مخالفت میں کوئی بیان آتا ہے تو فوراً اسے ہندوستان کے اندرونی معامالات میں مداخلت قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ لیکن جب اڈانی کا معاملہ سامنے آیا تو حکومت اسے بین الاقوامی سازش قرار دے کر مسترد کرنے کی ہمت نہیں کر سکی۔ کیونکہ اڈانی گروپ نے دنیا کے کئی ملکوں میں فرضی کمپنیاں بنا کر ہنڈن برگ کے مطابق فراڈ کرکے اربوں ڈالر کمائے ہیں۔ البتہ اڈانی گروپ کی جانب سے جو جواب دیا گیا اس میں ہنڈن برگ کی رپورٹ کو ہندوستانی قومیت پر حملہ قرار دیا گیا۔

Published: undefined

جب بی بی سی نے دستاویزی فلم جاری کی تو حکومت اس کو بھی اندرونی معاملے میں مداخلت قرار دے کر مسترد کرنے کی جرات نہیں کر سکی۔ البتہ اس نے اپنی کھسیاہٹ مٹانے کے لیے اس کے دفاتر پر سروے کا کام شروع کر دیا۔ ایسی کارروائی کو عام زبان میں چھاپہ کہا جاتا ہے لیکن سرکاری اصطلاح میں سروے کہا جاتا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ یہ ایک انتقامی کارروائی ہے تاکہ اس کو خاموش کیا جا سکے۔ لیکن بی بی سی نے کہا ہے کہ وہ بلا خوف و تردد اور بغیر کسی تعصب کے اپنا کام کرتا رہے گا۔

Published: undefined

اب جارج سوروس کے معاملے میں بھی حکومت نے اسے بین الاقوامی سازش قرار دیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل انھوں نے دیگر کئی ملکوں کے بارے میں بھی سنسنی خیز الزامات لگائے تھے لیکن کسی بھی حکومت نے اس طرح ردعمل ظاہر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ لیکن مودی حکومت نے اس پر فوری ردعمل ظاہر کیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ حکومت جو خود کو بہت طاقتور ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اندر سے کتنی خوف زدہ ہے۔ اس حکومت نے ہندوستان کو وشو گرو ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ دراصل وہ درپردہ نریند رمودی کو وشو گرو ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے۔ لیکن اس وشو گرو میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ راہل گاندھی کے سوالوں کے جواب دیں۔ یا ہنڈن برگ کے سوالوں کے جواب دیں یا پھر جارج سوروس کے سوالوں کے جواب دیں۔

Published: undefined

آج دنیا اس وشو گرو سے سوال کر رہی ہے اور کچھ پوچھ رہی ہے۔ لیکن وشو گرو کے ہونٹوں پر ٹیپ چپکا ہوا ہے۔ وہ کچھ بولنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ وہ لوگ جو ڈاکٹر منموہن سنگھ کو مونی بابا کہا کرتے تھے مودی کے مون برت پر چپ ہیں۔ ان سے یہ نہیں کہہ پا رہے ہیں کہ دنیا میں اتنا ہنگامہ برپا ہے۔ خدا را کچھ تو بولیے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined