پارلیمنٹ میں مودی کی تقریر، مارو گھٹنا پھوٹے سر... سہیل انجم

راہل گاندھی نے پوچھا کہ گوتم اڈانی 2014 تک عالمی امیروں کی فہرست میں 609 ویں نمبر پر تھے مگر اب وہ دوسرے نمبر پر کیسے آگئے۔

<div class="paragraphs"><p>پارلیمنٹ میں خطاب کرتے وزیر اعظم مودی / یو این آئی</p></div>

پارلیمنٹ میں خطاب کرتے وزیر اعظم مودی / یو این آئی

user

سہیل انجم

اسی کو کہتے ہیں مارو گھٹنا پھوٹے سر۔ کیا سوال تھا اور کیا جواب آیا۔ دو دنوں کی تین گھنٹے کی تقریر میں ایک بھی کام کی بات نہیں تھی۔ سوالات کی طرف تو انھوں نے رخ ہی نہیں کیا۔ کبھی دائیں بھاگتے تو کبھی بائیں۔ جیسے ان کو اس بات کا خوف ہو کہ اگر انھوں نے سوالوں کو چھونے کی کوشش کی تو انھیں اٹھارہ ہزار وولٹ کا کرنٹ لگ جائے گا۔ لوگ اس امید میں تھے کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور بولیں گے۔ کسی نہ کسی سوال کا جواب ضرور دیں گے۔ وہ بولے تو ضرور مگر کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔

قارئین بالکل صحیح سمجھے ہیں۔ ہم وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کا ذکر کر رہے ہیں۔ ان کی تقریر سے ایک روز قبل سینئر کانگری رہنما راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں تقریباً ایک گھنٹے کی تقریر کی تھی جس میں انھوں نے وزیر اعظم مودی سے سوال کیا تھا کہ وہ بتائیں کہ ملک کے بزنس ٹائکون گوتم اڈانی سے ان کا کیا رشتہ ہے۔ وہ اپنی تقریر کے دوران مودی اور اڈانی کے رشتوں کی پرتیں کھولتے رہے اور ایک ایک بات سے دنیا کو باخبر کرتے رہے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے نریندر مودی اڈانی کے جہاز میں سفر کرتے تھے لیکن اب اڈانی ان کے جہاز میں سفر کرتے ہیں۔


انھوں نے بتایا کہ 2014 میں پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی کامیاب کے بعد جب مودی دہلی آ رہے تھے تو اڈانی ہی کے جہاز میں آئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اڈانی گروپ نے حکومت سے سازباز کرکے اپنے اثاثوں میں اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ 2014 سے قبل گوتم اڈانی کی دولت آٹھ ارب ڈالر تھی لیکن وہ 2014 سے 2022 کے درمیان بڑھ کر 140 ارب ڈالر کیسے ہو گئی۔ انھوں نے پوچھا کہ گوتم اڈانی 2014 تک عالمی امیروں کی فہرست میں 609 ویں نمبر پر تھے مگر اب وہ دوسرے نمبر پر کیسے آگئے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ اڈانی گروپ کو ایئرپورٹ کے شعبے میں کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن حکومت نے ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے ملک کے چھ ایئرپورٹ دے دیئے۔ دفاع کے شعبے میں بھی کوئی تجربہ نہ ہونے کے باوجود اسے چار دفاعی ٹھیکے دیئے گئے۔ بارہا ایسا ہوا کہ وزیر اعظم نے کسی ملک کا دورہ کیا اور ان کی واپسی کے بعد گوتم اڈانی نے اس ملک کا دورہ کیا اور وہاں جا کر معاہدے کیے۔ انھوں نے سری لنکا کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان پر ملک کے صدر راجا پکشا کا دباؤ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاور پروجکٹ کا معاہدہ اڈانی گروپ سے ہی ہونا چاہیے۔


دراصل امریکہ کی ایک کاروباری فرم نے ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اڈانی گروپ نے اپنے اثاثوں میں اضافے کے لیے تاریخ کا سب سے بڑا مارکیٹ فراڈ کیا ہے۔ 126 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں سیکڑوں دستاویزات ہیں۔ اسے تیار کرنے میں دو سال لگے ہیں۔ اس کمپنی کے تحقیقات کاروں نے ایسے کئی ملکوں کا دورہ کیا جہاں آمدنی پر ٹیکس نہیں دینا پڑتا اور جہاں بے شمار شیل کمپنیاں یعنی فرضی کمپنیاں قائم ہیں۔ وہ فرضی کمپنیاں محض کاغذ پر ہوتی ہیں لیکن وہ کاغذ ہی پر ایسا کھیل کھیل جاتی ہیں کہ ان کے مالکوں کے لیے لاکھوں کروڑوں کے وارے نیارے اور دوسروں کے لیے لاکھوں کروڑوں کا خسارہ ہو جاتا ہے۔ اڈانی نے بھی کئی ایسے ملکوں میں جہاں ٹیکس نہیں دینا پڑتا متعدد فرضی کمپنیاں بنا رکھی ہیں جن کے توسط سے وہ لوگوں کے ساتھ فراڈ کرتے رہتے ہیں۔

اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اڈانی گروپ کے شیئرز کی قیمتیں دھڑام سے زمین پر آگئیں اور 26 جنوری سے اب تک اڈانی گروپ کو اربوں ڈالر کا خسارہ ہو چکا ہے۔ اس معاملے پر نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں ہنگامہ برپا ہے۔ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اچانک اڈانی کی دولت میں سیلاب کے پانی کی مانند اضافہ کیسے ہو گیا۔ ہندوستان کی اپوزیشن اس کی جانچ کا مطالبہ کر رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یا تو پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے تحقیقات ہو یا پھر سپریم کورٹ کے کسی جج کی نگرانی میں قائم ہونے والی کمیٹی اس کی جانچ کرے۔ لیکن حکومت اس مطالبے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔


راہل گاندھی نے اسی معاملے پر پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم سے چبھتے ہوئے سوالات پوچھے۔ لوگوں کو انتظار تھا کہ وہ جب اگلے روز لوک سبھا میں تقریر کریں گے تو ان سوالوں کے جواب دیں گے۔ لیکن اس دن انھوں نے کسی بھی سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ انھوں نے اڈانی معاملے کا حوالہ تک نہیں دیا چہ جائیکہ وہ اس بارے میں کسی سوال کو لیتے۔ لوگوں نے سوچا ممکن ہے کہ وہ جب کل راجیہ سبھا میں تقریر کریں گے تو وہاں جواب دیں گے۔ لیکن انھوں نے وہاں بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ ایسا لگا جیسے ان سے کچھ پوچھا ہی نہیں گیا ہے۔

اس کے برعکس انھوں نے انتخابی تقریر کر ڈالی۔ لوک سبھا کی تقریر بھی انتخابی تھی اور راجیہ سبھا کی بھی۔ انھوں نے جمعرات کو راجیہ سبھا میں جوں ہی اپنی تقریر کا آغاز کیا تو حزب اختلاف کے ارکان نے’مودی اڈانی بھائی بھائی‘ کے نعرے لگانا شروع کردیئے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر کے دوران یہ نعرہ ایوان میں گونجتا رہا۔وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ کچھ اراکان کے رویے اور ان کی زبان سے پورا ملک مایوس ہوا ہے۔ میں ایسی ذہنیت رکھنے والوں سے یہی کہوں گا کہ آپ جتنا کیچڑ اچھالیں گے کمل اتنا ہی کھلے گا۔ ان کے مطابق ایوان میں جو کچھ ہو رہا ہے عوام دیکھ رہے ہیں۔ کچھ اراکین نے تو ایوان کا وقار مجروح کیا ہے۔


انھوں نے دعویٰ کیا کہ سیکولرزم کا اصل مطلب ہم سمجھتے ہیں۔ حقیقی سیکولرزم کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی مختلف فلاحی اسکیموں کا فائدہ تمام ضرورت مندوں تک پہنچے۔ ہم نے ٹیکنالوجی کی طاقت کے بل پر کام کرنے کا طریقہ بدل دیا ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ کانگریس نے گزشتہ 60 برسوں میں ملک کو ترقی کی راہ پر لے جانے کے بجائے ملک میں گڑھے کھود دیئے جب کہ اسی دوران چھوٹے چھوٹے ملک ترقی کرتے رہے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں ماضی کی کانگریس حکومتوں پر متعدد الزامات عاید کیے۔

یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ انھوں نے اپوزیشن ارکان کی زبان اور لب و لہجے پر تنقید کی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود جب پارلیمنٹ میں بولتے ہیں تو ان کا لہجہ انتہائی ناشائستہ ہوجاتا ہے۔ وہ مخالف ارکان اور پارٹی لیڈروں کو صرف اور صرف ذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ بعض اوقات تو ان کا انداز انتہائی بازارو ہو جاتا ہے۔ مہاراشٹرا کانگریس کے صدر نے صحیح کہا ہے کہ ایسا لگ رہا تھا کہ مودی کسی پان کی دکان پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ان کی یہ بات کہاں تک درست ہے کہ کانگریس نے ساٹھ برسوں میں ملک میں گڈھے ہی گڈھے کھود دیئے۔ ان ساٹھ برسوں میں ملک نے جو ترقی کی تھی، حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس کو ملیا میٹ کر رہی ہے۔ ان حکومتوں نے جو کچھ کمایا تھا یہ حکومت ان سب کو نجی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کر کے گنوا رہی ہے۔


مبصرین کا کہنا ہے کہ ان کو پہلے سے ہی یہ امید تھی کہ وزیر اعظم اپوزیشن کے الزامات کے جواب نہیں دیں گے اور نہ ہی وہ اڈانی گروپ کا کوئی حوالہ دیں گے۔ حالانکہ انھیں جواب دینا چاہیے تھا۔ تاکہ جو الزامات لگائے جا رہے ہیں ان کے بارے میں عوام کو مطمئن کیا جا سکے۔ لیکن ان کے بقول جس طرح وہ چین کا نام نہیں لیتے اسی طرح وہ اڈانی کا بھی نام نہیں لے رہے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کی یہ روایت رہی ہے کہ حکومت ایوان میں اپوزیشن کے سوالوں کا جواب دیتی رہی ہے۔ سابقہ وزرائے اعظم اپوزیشن کے سوالوں کو نوٹ کرتے تھے اور ایک ایک نکتے کا جواب دیتے تھے۔ لیکن یہ حکومت شاید پارلیمانی روایات میں یقین ہی نہیں رکھتی۔ اسی لیے وہ روایات سے ہٹ کر کام کرتی ہے۔ اس نے اس حکمت عملی کو اختیار کر لیا ہے کہ سابقہ حکومتوں پر تنقید کرو اور اپنی حکومت کے گن گاؤ اور اپنی پیٹھ ٹھونکو۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔