بی بی سی پر مودی سرکار کو غصہ کیوں آتا ہے!... ظفر آغا

برطانیہ جیسا مغربی ملک جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اس کی مصیبتیں بڑھ ہی جاتی ہیں۔ اب دیکھیں کہ بی بی سی اور مودی حکومت کے درمیان چھڑی اس جنگ میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!

<div class="paragraphs"><p>بی بی سی دفتر / Getty Images</p></div>

بی بی سی دفتر / Getty Images

user

ظفر آغا

لیجیے، اب بی بی سی پر مودی حکومت کا قہر ٹوٹ پڑا۔ بات کیا ہے سب جانتے ہی ہیں۔ دراصل جس بی بی سی ڈاکیومنٹری کے سبب مودی حکومت اور بی بی سی کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اس فلم نے نریندر مودی کی سب سے دُکھتی رَگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ سنہ 2002 کے گجرات فسادات مودی کی دکھتی رَگ ہے۔ اگر کسی نے غلطی سے بھی یہ کہہ دیا کہ ان فسادات میں یعنی مسلم نسل کشی میں مودی بھی ملوث تھے تو اس پر آفت ٹوٹ پڑتی ہے۔ اور بی بی سی ڈاکیومنٹری نے یہی بات کہی ہے۔ ظاہر ہے کہ پھر تو ہنگامہ ہونا ہی تھا۔ پہلے ہندوستان میں ڈاکیومنٹری کے نشریہ پر پابندی لگی، پھر جلد ہی انکم ٹیکس والوں نے بی بی سی کے ممبئی اور دہلی آفس کے دروازوں پر دستک دے دی۔ اس طرح یہ معاملہ اب مودی حکومت اور بی بی سی کے درمیان ایک باقاعدہ جنگ میں تبدیل ہو گیا۔ اب سنگھ سے لے کر بی جے پی تک سب اس معاملے کو ہندوستان کی سالمیت پر حملہ قرار دے رہے ہیں، جبکہ لندن اور واشنگٹن کے اخبار اس کو آزاد صحافت پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ اس طرح برطانیہ اور ہندوستان کے آپسی تعلقات بھی بگڑ رہے ہیں۔

خیر یکایک یہ لندن اور نئی دہلی کے بیچ تلخیاں کیوں پیدا ہو گئیں! گجرات فسادات آج سے کوئی بیس برس قبل ہوئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ بی بی سی کو یہ فسادات اور اس میں ’مودی فیکٹر‘ اب کیوں یاد آیا! جو بی بی سی کو جانتا اور سمجھتا ہے وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ بی بی سی برطانوی نظام کا ایک حصہ ہے۔ یعنی حساس مسائل بی بی سی برطانوی نظام کی مرضی کے بغیر نہیں اٹھا سکتا ہے۔ گجرات دنگا بھی ایک انتہائی حساس معاملہ ہے، پھر بھی بی بی سی نے یہ ڈاکیومنٹری کی۔ ظاہر ہے کہ بی بی سی اور برطانوی نظام کو یہ تو اندازہ رہا ہی ہوگا کہ اس فلم کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات تلخ ہو جائیں گے۔ سو وہی ہوا بھی۔ لب و لباب یہ کہ برطانوی نظام مودی سے کسی بات پر ناراض تھا اور اس کے لیے وہ اس ڈاکیومنٹری کے ذریعہ مودی کو ایک وارننگ دے رہا تھا۔ دراصل اس ڈاکیومنٹری کے نشریہ سے قبل برطانیہ اور ہندوستان کے تعلقات انتہائی خوشگوار تھے۔ برطانیہ میں پہلی بار ایک ہندو رِشی سنک نامی شخص وزیر اعظم بنا تھا۔ سنگھ اور بی جے پی دونوں نے اس بات پر تالیاں بجائیں تھیں۔ رشی اور مودی آپس میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت اور پروان چڑھنے کی باتیں کر رہے تھے۔ ایسے خوشگوار حالات میں برطانیہ کو مودی کو چھیڑنے کی کیا ضرورت آن پڑی!


جیسا ابھی عرض کیا ہے، محض برطانیہ ہی نہیں بلکہ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک کے تعلقات مودی سرکار سے بہت خوشگوار تھے۔ چین اور ہندوستان کے درمیان لداخ سرحد پر تلواریں کھنچنے کے بعد مغرب یہی تصور کرتا تھا کہ عالمی معاملات میں اب ہندوستان مغرب کا ally (اتحادی) ہے۔ لیکن صرف ایک بات ایسی ہوئی جس کے سبب مغرب مودی حکومت سے ناخوش تھا۔ اور وہ بات یوکرین پر روس کا فوجی حملہ تھا۔ یوکرین جنگ مغرب کے لیے ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ پھر یہ جنگ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی جنگ ہے جو خود مغربی سرحدوں اور زمین پر ہو رہی ہے۔ یوکرین پر حملہ کر روس نے خود یورپ کے اندر مغربی برتری کو چیلنج کر دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ بات مغرب کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ امریکہ سمیت تمام مغرب کو یہ توقع رہی ہوگی کہ مودی حکومت یوکرین جنگ میں پوری طرح کھل کر مغرب کا ساتھ دے گا۔

لیکن ایسا ہوا نہیں۔ ہندوستان نے اصولی طور پر جنگ کی تو مذمت کی، لیکن یوکرین پر حملہ کی باقاعدہ کھل کر مذمت نہیں کی۔ اس کے برخلاف مودی حکومت پوتن حکومت کے اس جنگ کے درمیان اور قریب ہو گئی۔ روس کے ساتھ ہندوستان کے تجارتی تعلقات اس جنگ کے درمیان بے حد بڑھ گئے۔ ہندوستان روس سے سستا تیل بہت بڑی مقدار میں خریدنے لگا۔ یہ ایک طرح سے جنگ کے دوران روس کی معاشی مدد تھی۔ جبکہ امریکہ کے ساتھ مغربی ممالک جیسے برطانیہ نے روس کے خلاف معاشی پابندی لگا دی تھی۔ ایسے حالات میں بی بی سی کو ہمیں سالوں بعد یکایک گجرات فسادات میں مودی فیکٹر نظر آ گیا اور بی بی سی نے یہ ڈاکیومنٹری چلا دی۔ اس ڈاکیومنٹری پر ہندوستان میں پابندی کے باوجود ہندوستان کے اندر اور ہندوستان کے باہر خاصی شہرت ملی۔ ظاہر ہے کہ اس بات پر مودی حکومت تلملا اٹھی۔ پہلے تو ہندوستانی حکومت نے اس متنازعہ ڈاکیومنٹری پر پابندی لگا دی۔ پھر اس کے دو ہفتوں کے اندر ہی ہندوستانی انکم ٹیکس کے افسران بی بی سی دفتر چھان بین کے لیے پہنچ گئے۔ ظاہر ہے کہ اب برطانیہ اور ہندوستان کے تعلقات بھی ناخوشگوار ہو گئے۔


یہ بات اپنے میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ کیونکہ سنہ 2014 میں جب سے مودی اقتدار میں آئے ہیں، تب سے ابھی حال تک نریندر مودی پوری مغربی دنیا کی آنکھوں کے تارا تھے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب مغرب کے کسی ملک اور وہ بھی ایک انتہائی اہم ملک برطانیہ کے ساتھ مودی کے تعلقات تلخ ہو گئے ہیں۔ برطانیہ جیسا مغربی ملک جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اس کی مصیبتیں بڑھ ہی جاتی ہیں۔ اب دیکھیں کہ بی بی سی اور مودی حکومت کے درمیان چھڑی اس جنگ میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 19 Feb 2023, 11:11 AM
/* */