سی پی رادھاکرشنن اور بی سدرشن ریڈی / سوشل میڈیا
بی جے پی کو کراس ووٹنگ کے خدشے اور این ڈی اے کے اندر بڑھتی بے چینی کے درمیان آج ہونے والا نائب صدر کا انتخاب ہندوستانی سیاست کو نئی کروٹ دے سکتا ہے۔ بظاہر اعدادوشمار بی جے پی اور این ڈی اے کے حق میں ہیں۔ ان کے پاس لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں 427 ارکان ہیں، جبکہ اپوزیشن اتحاد انڈیا کے پاس صرف 353 ارکان ہیں۔ نائب صدر جیتنے کے لیے کسی امیدوار کو 392 ووٹ درکار ہیں۔ سیدھی گنتی یہ بتاتی ہے کہ بی جے پی کے امیدوار اور سابق گورنر سی پی رادھا کرشنن کو آسان کامیابی ملنی چاہیے۔
لیکن سیاست صرف حساب کتاب نہیں ہے۔ پچھلے کچھ ہفتوں میں ناراضگی، لابنگ اور کراس ووٹنگ کی قیاس آرائیوں نے بی جے پی قیادت کو پریشان کر دیا ہے۔ اپوزیشن امیدوار، ریٹائرڈ جسٹس بی سدرشن ریڈی، ایک سخت حریف کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ یہ انڈیا بلاک کی تعداد کے باعث نہیں، بلکہ اس لیے ہے کہ بی جے پی اپنے ہی اندر اعتماد سے محروم نظر آ رہی ہے۔
Published: undefined
عموماً نائب صدر کے انتخاب میں زیادہ جوش و خروش نہیں ہوتا، لیکن اس بار حالات مختلف ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے رادھا کرشنن کی جیت یقینی بنانے کے لیے اپنی پوری توانائی جھونک دی ہے۔ ان کے لیے مسئلہ محض ووٹوں کا نہیں بلکہ وفاداری کا ہے۔ بی جے پی کے اندر ایک طبقہ مرکزی قیادت کی حد سے زیادہ کنٹرول والی سیاست پر ناخوش ہے۔
افواہیں ہیں کہ این ڈی اے میں چندر بابو نائیڈو کی تلگو دیشم پارٹی اپنے راستے کھلے رکھے ہوئے ہے، اگرچہ ظاہری طور پر این ڈی اے کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ وہیں، نوین پٹنایک کی بی جے ڈی نے تو ووٹنگ میں غیر حاضر رہنے کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری طرف انڈیا بلاک نے جسٹس ریڈی کے لیے جارحانہ مہم چلائی ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے مختلف پارٹیوں کے ناراض ارکان سے ذاتی طور پر رابطہ کیا ہے۔ ووٹنگ کی رازداری اس امکان کو بڑھاتی ہے کہ ناراض ووٹ نتیجے کو پلٹ بھی سکتے ہیں۔
Published: undefined
کامیابی کے لیے 392 ووٹ ضروری ہیں۔ جسٹس ریڈی کی جیت تبھی ممکن ہے جب این ڈی اے کے تقریباً 35-40 ارکان، بشمول بی جے پی، کراس ووٹنگ کریں۔ ساتھ ہی اپوزیشن کو کچھ چھوٹی پارٹیوں یا آزاد ارکان کی بھی حمایت چاہیے ہوگی۔ یہ بظاہر مشکل ہے، لیکن بی جے پی کے اندر بے چینی نے اپوزیشن کو حوصلہ دیا ہے۔
رادھا کرشنن اگر کم مارجن سے جیتے تو یہ بھی پارٹی کے اندرونی اختلاف کو اجاگر کرے گا۔ بی جے پی قیادت نے صورتحال سنبھالنے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ خبر ہے کہ امت شاہ نے کئی ایسے ارکان کو ذاتی فون کیے ہیں جن سے وہ عام طور پر نہیں ملتے۔ ارکان پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے، لالچ اور دباؤ کی افواہیں بھی ہیں۔ لیکن ان غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہی مودی اور شاہ کے ناقابل شکست تاثر کے کمزور ہونے کی نشانی ہے۔
Published: undefined
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ انتخاب بی جے پی قیادت کے لیے ’ہر حال میں نقصان‘ جیسی صورت حال ہے۔ اگر رادھا کرشنن آسانی سے جیت جاتے ہیں تو یہ محض وہی ہوگا جو گنتی پہلے سے بتا رہی تھی، لیکن سخت حکمت عملی اور دباؤ کے تاثر کو کمزور نہ کر سکے گا۔ اگر وہ تھوڑے فرق سے جیتتے ہیں تو یہ اندرونی بے چینی کا اشارہ ہوگا۔ اور اگر وہ ہار گئے تو یہ سیاسی زلزلے سے کم نہ ہوگا، جس سے مودی-شاہ کی ناقابل شکست شبیہ ٹوٹ جائے گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا بی جے پی کے ارکان بغاوت پر آمادہ ہوں گے؟ اس کے کچھ اسباب یہ بتائے جا رہے ہیں کہ بی جے پی کے تقریباً نصف ارکان کا کیریئر سنگھ سے وابستہ نہیں ہے۔ مودی کا جادو کمزور ہونے کے ساتھ وہ اپنی ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے میں زیادہ آزاد محسوس کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
رادھا کرشنن کی امیدواری پر بے چینی: این ڈی اے کی کچھ اتحادی جماعتیں انہیں مودی-شاہ کی پسندیدہ شخصیت مانتی ہیں، اس لیے ان کے لیے پرجوش نہیں ہیں۔
سنگھ کی خاموشی: کہا جاتا ہے کہ سنگھ رادھا کرشنن کی امیدواری پر خاص پرجوش نہیں ہے۔ تو کیا وہ ایسا کردار ادا کرے کہ مودی کی طاقت کمزور ہو لیکن حکومت پر فرق نہ پڑے؟
ان حالات میں جسٹس ریڈی کی امیدواری صرف اپوزیشن کے لیے نہیں، بلکہ بی جے پی کے ناراض اور غیر جانبدار اتحادیوں کے لیے بھی کشش رکھتی ہے۔
Published: undefined
اگر جسٹس ریڈی جیت گئے تو اس کے دور رس نتائج ہوں گے:
سب سے پہلے، یہ مودی اور شاہ کی اپنی پارٹی اور اتحادیوں پر گرفت کے کمزور ہونے کا اشارہ ہوگا۔ ووٹنگ کی رازداری انہیں یہ بھی موقع دے گی کہ باغی ارکان کی شناخت ممکن نہ ہو، اس طرح قیادت انہیں سزا بھی نہیں دے پائے گی۔
دوسرے، اپوزیشن انڈیا بلاک کو بڑی تقویت ملے گی۔ یہ انتخاب براہِ راست حکومت کے توازن کو نہیں بدلتا، لیکن علامتی طور پر اپوزیشن کو متحد کرنے کی طاقت دے گا۔
تیسرے، نائیڈو یا نتیش کمار جیسے اتحادی اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کر سکتے ہیں۔ اگر بی جے پی کو غیر مستحکم سمجھا گیا تو نئے سیاسی جوڑ توڑ ممکن ہو جائیں گے۔
سب سے اہم یہ کہ اس کے اثرات 2029 کے منظرنامے پر پڑیں گے۔ 2014 سے بی جے پی کے تسلسل پر قائم غلبے کی کہانی تیزی سے ختم ہو سکتی ہے۔
Published: undefined
آج کا انتخاب محض اس لیے اہم نہیں کہ نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین کی کرسی پر کون بیٹھے گا، بلکہ اس لیے ہے کہ گزشتہ دہائی میں سب سے طاقتور سمجھے جانے والے سیاسی قیادت کی ساکھ کتنی برقرار رہتی ہے۔
آج شام نتیجہ جو بھی آئے، یہ ضرور واضح ہوگا کہ ہندوستانی سیاست ایک نئے اور غیر متوقع دور میں داخل ہو چکی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز