رابعہ کی اے آئی سے بہتر کی گئی تصویر
تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان کو آزادی تحفے میں نہیں ملی، بلکہ یہ 190 برسوں پر محیط ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کا نتیجہ تھی۔ اس جدوجہد میں بلا تفریق مذہب و ملت، مرد و خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تاہم افسوس کہ خواتین کی قربانیوں اور خدمات کو وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جس کی وہ بجا طور پر حقدار تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک ان دلیر اور جری خواتین کا تذکرہ نہ ہو، ہماری تاریخ نامکمل رہتی ہے۔
ایسی ہی ایک عظیم مجاہدہ، سیدہ ملّا رابعہ بی تھیں، جنہوں نے انگریز استعمار کے خلاف وہ نعرہ بلند کیا جو اس دور میں بہت کم خواتین کی ہمت کا حصہ تھا۔ وہ ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں لیکن انگریزوں کے جابرانہ رویے اور ہندوستانیوں کے ساتھ دوہرے معیار کو دیکھ کر ان کے دل میں نفرت کی چنگاریاں شعلوں میں بدل گئیں۔
Published: undefined
سیدہ ملّا رابعہ بی کی ولادت 6 اپریل 1926 کو ضلع اننت پور کے گاؤں چی یدو کے ایک معزز خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام محی الدین اور والدہ کا نام زین بی بی تھا۔ تعلیم کا آغاز مقامی اسکول سے کیا، تاہم گھریلو حالات کے باعث صرف ساتویں جماعت تک ہی تعلیم حاصل کر سکیں۔ بعد ازاں ان کی شادی سید ملّا محی الدین سے ہوئی، جو خود ایک حریت پسند تھے۔ شوہر کے انقلابی نظریات نے سیدہ کے دل میں بھی آزادی کی تڑپ پیدا کر دی، اور وہ ان کے ساتھ جدوجہدِ آزادی کی پرخطر راہوں پر چل پڑیں۔
Published: undefined
چنانچہ سیدہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کی رہنمائی میں انگریزی نو آبادیاتی نظام کے خلاف حصّہ لینے کے لیے کمربستہ ہوگئیں۔ ایسے دور میں جب دوسری عالمی جنگ جاری تھی، ان حالات میں انگریز حکومت کو ہندوستان کا مکمل تعاون درکار تھا ،جبکہ ہندوستانیوں کو یہ منظور نہیں تھا چناچہ انڈین نیشنل کانگریس نے برطانوی حکمرانوں کے فیصلے کے خلاف جنگ مخالف تحریک چھیڑنے کا بگل بجا دیا۔ ملک کے دہلی، بمبئی، کلکتہ اور مدراس وغیرہ ہ جیسے شہروں میں عوام کا جم غفیر شاہراہوں پر نظر آنے لگا۔
1941 میں جب اننت پور کے آرٹس کالج میں خواتین کی ’انفرادی ستیہ گرہ‘ پر گفتگو ہو رہی تھی، تو سیدہ ملّا رابعہ بی نے آگے بڑھ کر پہل کی اور انفرادی ستیہ گرہ کرنے والی ریاست آندھرا پردیش کی پہلی خاتون بن گئیں۔ ایشیا کمپینین جیسے جریدے نے ان کے عمل کو تصویری شکل میں محفوظ کیا۔ سیدہ ’بھارت چھوڑو تحریک‘ میں بھی سرگرم رہیں اور انگریزوں کے خلاف ہر محاذ پر ڈٹی رہیں۔
Published: undefined
15 اگست 1947 کو جب ہندوستان آزاد ہوا تو سیدہ نے جابر انگریزوں کی شکست اپنی آنکھوں سے دیکھی، لیکن وہ یہیں رکی نہیں۔ آزادی کے بعد بھی انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ لیفٹ نظریات کے تحت سماجی اصلاحات کے کاموں میں حصہ لینا جاری رکھا۔ وہ ہمیشہ ضرورت مندوں کی مدد کے لیے حاضر رہتیں اور اپنے کھلے دل و ہاتھ کے لیے جانی جاتیں۔
سیدہ ملّا رابعہ بی نے 30 جون 1995 کو دنیا سے رخصت لی۔ وہ اگرچہ آج ہمارے درمیان موجود نہیں، لیکن ان کا بے باک کردار، انقلابی جذبہ اور قربانیاں ہماری تاریخ کا روشن باب ہیں۔ ہم پر فرض ہے کہ ہم سیدہ ملّا رابعہ بی جیسی گمنام مجاہدات کے تذکرے کو زندہ رکھیں، تاکہ نئی نسلیں ان سے تحریک حاصل کر سکیں اور جان سکیں کہ آزادی کی قیمت کیا ہوتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined