27 ستمبر کو محکمہ جنگلات نے اعلان کر دیا کہ دہشت پھیلانے والے بھیڑیا کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ ایک ہی دن بعد 28 ستمبر کی شب بہرائچ کے قیصر گنج کے منجھارا توکلی میں کھیت کی رکھوالی کر رہے 80 سالہ کھیدن اور ان کی بیوی کے لاشیں ملیں، اور موقع واردات پر بھیڑیوں کے قدموں کے نشان بھی ملے۔ یہ تیسرا سال ہے جب بارش کے بادل چھٹنے لگتے ہیں اور گھنے جنگلات اور سریو یا گھاگرا اور اس کی معاون ندیوں رَاپتی، گیروا، کودیالا وغیرہ سے خوشحال بہرائچ کے گاؤں گاؤں سے بھیڑیوں کی دہشت پھیلانے والی خبریں آنے لگتی ہیں۔
Published: undefined
ضلع کے قیصر گنج علاقہ کے منجھارا توکلی میں گزشتہ 25 دنوں میں ایسے 24 واقعات سامنے آئے ہیں جن میں بھیڑیا نے حملہ کیا۔ پچھلے سال اسی مدت کے دوران 11 لوگ مارے گئے تھے اور تقریباً 50 زخمی ہوئے تھے۔ لاکھوں روپے خرچ ہوئے اور کہا گیا کہ 6 باغی بھیڑیے مارے گئے اور اتنے ہی پکڑے گئے۔ لیکن اس سال پھر روزانہ 50 ہزار روپے خرچ کرنے کے باوجود وہ بھیڑیے سامنے نہیں آئے جو انسان پر حملہ کر رہے تھے۔
Published: undefined
6 افراد کی موت کے بعد اتر پردیش حکومت نے بھیڑیے کو دیکھتے ہی فائر کر دینے کے احکامات جاری کر دیے ہیں، جبکہ ماحولیاتی مطالعہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر بھیڑیے کیوں پرتشدد ہو رہے ہیں؟ ایک مخصوص علاقہ اور مخصوص موسم میں ہی ان کا مزاج کیوں بدل رہا ہے؟ کسی جنگل کے ماحولیاتی توازن میں بھیڑیے اور لومڑی جیسے جانور لازمی ہیں اور اب بھیڑیے ناپید ہوتی نوع کی فہرست میں شامل ہو رہے ہیں۔
Published: undefined
ہندوستانی بھیڑیا (کینس لیوپس پیلپس) بھورے بھیڑیے کی ایک نایاب ذیلی نسل ہے، جو برصغیر اور اسرائیل تک وسیع علاقے میں پائی جاتی ہے۔ چڑیا گھروں میں تقریباً 58 بھیڑیے ہیں، جبکہ پورے ملک میں 55 اقسام کے 3000 سے کم بھیڑیے ہی باقی ہیں۔ اتر پردیش جیسے بڑے صوبہ میں شاید ان کی تعداد 300 بھی نہ ہو۔ ان میں سے بیشتر سرد علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔
Published: undefined
عام طور پر بھیڑیے انسان سے ڈرتے ہیں اور انسانوں پر حملہ کرنا نایاب ہے۔ بھیڑیے مار ڈالنا یا قید کر لینا عارضی حل تو ہے، مگر جنگلات اور گنے کی کاشت والے بہرائچ میں جانور کا خونخوار یعنی درندہ صفت ہو جانا انسان اور جنگلی حیات کے تصادم کا ایک الجھا ہوا معمہ ہے، جس کا حل نہ نکالا گیا تو یہ مسئلہ بڑا ہو سکتا ہے۔ اگر جنگل کے پیرامڈ کو سمجھیں تو سب سے گہرے جنگل، جہاں درختوں کی بلندی کے باعث روشنی کم پہنچتی ہے، وہ رات کے جانوروں جیسے چمگادڑ کا مسکن ہوتا ہے۔ پھر اونچے درختوں اور اونچی جھاڑیوں والے جنگل آتے ہیں، جہاں گوشت خور جانور مثلاً شیر، ببر شیر وغیرہ اپنے دائروں میں رہتے ہیں۔ اس کے بعد ہرن، خرگوش، ریچھ، ہاتھی وغیرہ آتے ہیں جو پودوں سے خوراک لیتے ہیں۔ جب گوشت خور جانوروں کو بھوک لگتی ہے تو وہ اپنے دائرے سے باہر نکل کر شکار کرتے ہیں۔ ان کی خوراک کے بچے ہوئے حصے کا دائرہ بستی اور جنگل کے درمیان ہوتا ہے، جہاں چارہ گاہ بھی ہوتے ہیں اور بلاؤ، لومڑی، بھیڑیا جیسے جانور رہتے ہیں، جو گوشت خور جانوروں کی باقیات صاف کر کے اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ انسانوں کے پالتو جانور یعنی گائے، بکری اور کتے بھی پکڑ لیتے ہیں۔
Published: undefined
کوئی بھی جانور انسان یا دوسرے جانور پر حملہ بالعموم 2 وجوہات سے کرتا ہے۔ یا تو خوراک کے لیے، یا پھر خوف کے باعث۔ اگر باریک بینی سے دیکھیں تو جنگل کا پیرامڈ تباہ ہو چکا ہے اور اب کم گہرے جنگل میں رہنے والے گوشت خور جانور بھی بستی کے قریب آنے لگے ہیں۔ جب اُن کے لیے خوراک کم پڑتی ہے تو اُن کے چھوڑے پر پلے بھیڑیے، سیار وغیرہ تو بھوکے رہیں گے ہی، اور چونکہ یہ صدیوں سے انسانی بستیوں کے قریب رہے ہیں، اس لیے یہاں سے کھانا چرا لینے میں ماہر ہیں۔ جب بستی میں بھیڑیے کو اس کے لیے موزوں چھوٹا شکار نہ ملے تو وہ چھوٹے بچوں کو اٹھا لیتا ہے۔ ایک بار اسے انسان کے خون کا ذائقہ لگ جائے تو وہ اس کے لیے پاگل ہو جاتا ہے۔
Published: undefined
بہرائچ گھاگرا یا سریو ندی کے کنارے واقع ہرا بھرا اور زرخیز ضلع ہے۔ یہاں سال، ساگوان اور بانس کے گہرے جنگلات ہوا کرتے تھے جن میں شیر سے لے کر خرگوش تک کے مسکن ہوتے تھے۔ ضلع کے شمالی حصہ میں اب بھی گنجان جنگلات موجود ہیں۔ ترائی کا یہ علاقہ نیپال کی سرحد کے نزدیک واقع ہے۔ بے شک جب بھیڑیے درندہ صفت ہو گئے ہیں تو اُن سے نمٹنا ضروری ہے، لیکن آخر ایسے حالات کیوں بن گئے؟ بھیڑیے فطرت کا حصہ ہیں اور ان کا انسان سے اچانک ٹکراؤ کیوں بڑھ گیا؟
Published: undefined
بھیڑیا ایک پیچیدہ سماجی ساخت والے جھُنڈ میں رہنے والا جانور ہے جس میں جارح اور چلبلا دونوں طرح کے رویے شامل ہوتے ہیں۔ یہ انسان کو دیکھ کر ڈرتا ہے، لیکن بھاگتا نہیں۔ جھُنڈ میں دوسروں پر فوقیت پانے یا اُن کی جارحیت کو کم کرنے کے لیے یہ جارح رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔ بھیڑیے عام طور پر انسان سے محتاط رہتے ہیں اور شکاریوں، کسانوں، مویشی پالنے والوں اور چرواہوں کے ساتھ اپنے تجربات کی وجہ سے ان میں انسانوں کے لیے خوف کا احساس بستا ہے۔
Published: undefined
ہندوستانی بھیڑیا جھاڑی دار جنگلات، گھاس کے میدان، نیم خشک علاقے اور کم درختوں والے جنگلات میں رہنا پسند کرتا ہے۔ ایسے مقامات جہاں تنہائی ہو اور وہ غار نما ٹھکانہ بنا سکیں، وہ اُن کے مسکن کی ترجیح ہوتے ہیں۔ بہرائچ کا علاقہ اسی لیے انہیں پسند ہے۔ لیکن جس طرح موسمیاتی تبدیلی کا اثر اتر پردیش کے ترائی والے علاقوں میں شدت اختیار کر چکا ہے، اُس کے مطابق جانوروں کو خود کو ڈھالنے میں دہائیاں لگیں گی۔ فی الحال وہ موسم کے غیر فطری اتار چڑھاؤ کی وجہ سے پیدا ہونے والے رہائش اور خوراک کے بحران سے نمٹنے کے لیے ہجرت کا ہی انتخاب کر رہے ہیں۔ گرمی بڑھنے پر بھیڑیے کا فطری شکار بھی ہجرت کرتا ہے اور وہ بھی ان کے پیچھے چلتے ہیں۔
Published: undefined
بھیڑیے کے رویے میں آنے والی تبدیلی کا سبب ریبیز کے علاوہ کوئی دیگر بیماری بھی ہو سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث اب سامنے آنے والی نئی بیماریاں اور کیڑے بھی بھیڑیوں اور اُن کے شکار کو متاثر کر سکتے ہیں۔ مثلاً گرم موسم کی وجہ سے ٹکس اور جوؤں کا شمال کی طرف پھیلاؤ ممکن ہے، جو بھیڑیوں اور اُن کے شکار کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ان سے اُن کی جارحیت میں اضافہ ممکن ہے۔ کسی علاقہ میں ان کی آبادی میں اچانک اضافہ یا جنسی ملاپ نہ کر پانے کے سبب بھی اُن میں جارحیت آسکتی ہے۔
Published: undefined
بھیڑیا بھی جنگل اور قدرتی توازن کے لیے ایک اہم مخلوق ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے ایسے چیتے کھو دیے تھے۔ پھر 75 سال بعد انہیں افریقی ملکوں سے منگوانا پڑا۔ مشرقی اتر پردیش کے گہرے جنگلات کم ہونے سے انسان اور جنگلی حیات کے درمیان تصادم بڑھتا جا رہا ہے۔ کبھی شیر، کبھی ہاتھی اور کبھی مگرمچھ بھی اس علاقہ میں لوگوں کے درمیان آ کر خوف اور ٹکراؤ کا سبب بن رہے ہیں۔
Published: undefined
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی جانور کو ایسے خونخوار و درندہ صفت بننے سے روکا جائے تاکہ وہ انسان خور نہ بنے۔ اس کے لیے اُن کے لیے مناسب جنگلات اور قدرتی خوراک کو محفوظ رکھنے کے کام کرنے ہوں گے۔ اسے مار ڈالنا تو ایک عام حل ہے، جبکہ اس کے مزاج میں تبدیلی لانے کے اقدامات فطری اور طویل المدت عمل ہیں۔
Published: undefined