دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن جواہر لال نہرو اب بھی کروڑوں ہندوستانیوں کے لیے روشنی کے مینار ہیں: سونیا گاندھی

سونیا گاندھی نے کہا کہ جواہر لال نہرو کو بدنام کرنا آج کی حکمراں طاقت کا اہم ترین ہدف ہے۔ ان کا مقصد صرف نہرو کو مٹانا نہیں بلکہ اس سماجی، سیاسی و معاشی بنیاد کو ختم کرنا ہے جس پر ہمارا ملک قائم ہوا۔

<div class="paragraphs"><p>’دی نہرو سنٹر انڈیا‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتی ہوئی سونیا گاندھی، تصویر ’ایکس‘&nbsp;<a href="https://x.com/INCIndia">@INCIndia</a></p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

5 دسمبر کو دہلی کے تاریخی ’جواہر بھون‘ میں ’نہرو سنٹر انڈیا‘ کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقع پر کانگریس کی سینئر لیڈر سونیا گاندھی نے جواہر لال نہرو کے نظریات، ان کی سوچ اور موجودہ وقت میں ان کی شخصیت کو مسخ کرنے کی ہو رہی کوششوں پر سیر حاصل تقریر کی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’آج شام آپ سب کے ساتھ ہونا میرے لیے باعثِ مسرت ہے، تاکہ ہم اپنے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی یاد اور اُن کی خدمات کا احترام کر سکیں۔ وہ جدید ہندوستان کے حقیقی معمار تھے۔ اُن کی پوری زندگی پارلیمانی جمہوریت میں گہرے یقین سے تعبیر ہے۔ اُنہیں منصوبہ بند معاشی ترقی پر کامل یقین تھا اور سائنسی مزاج کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ سائنسی و تکنیکی صلاحیتوں کے استحکام سے گہری وابستگی بھی تھی۔‘‘

سونیا گاندھی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’جواہر لال نہرو کی میراث آج بھی ہماری روزمرہ زندگیوں کو متاثر کرتی ہے۔ دہائیاں گزر چکی ہیں، لیکن وہ اب بھی کروڑوں ہندوستانیوں کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔ یہ فطری بات ہے کہ اتنی عظیم المرتبت شخصیت کی زندگی اور کارناموں کا تجزیہ اور تنقید ہو، اور ہونا بھی چاہیے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’اگرچہ اُنہیں اُن کے عہد اور اُن چیلنجوں سے الگ کر کے دیکھنے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے جن کا سامنا اُنہوں نے کیا۔ اس تاریخی پس منظر کو نظر انداز کرتے ہوئے اُن کی شخصیت کو پرکھنے کا طریقہ عام ہوتا جا رہا ہے۔ ہم اُن کی خدمات پر جاری علمی بحث کا خیر مقدم کرتے ہیں اور ساتھ ہی اُنہیں منظم طریقے سے بدنام کرنے، کم تر دکھانے و بدخواہی کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کو ناقابل قبول ٹھہراتے ہیں۔‘‘


حکمراں طبقہ کو ہدف بناتے ہوئے سونیا کہتی ہیں کہ ’’نہرو جی کو بدنام کرنے کی کوشش کا مقصد نہ صرف اُن کی شخصیت کو گھٹانا ہے بلکہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں اُن کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ کردار اور ایک آزاد ملک کے ابتدائی دشوار دہائیوں میں اُن کی قیادت کو بھی مٹانا ہے۔ یہ لوگ نہرو جی کی ہمہ جہت میراث کو مسخ کر کے تاریخ کو اپنے مطلب کے مطابق دوبارہ لکھنے کی بھونڈی کوشش کر رہے ہیں۔ تجزیہ ایک الگ چیز ہے، لیکن دانستہ طور پر شرارت کرنا، اُن کی باتوں، تحریروں اور اقدامات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ اسے قطعی قبول نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ وہ آگے کہتی ہیں کہ ’’یہ منصوبہ کون چلا رہا ہے، ہمیں سب علم ہے۔ یہ وہ طاقتیں ہیں جو برسوں، بلکہ دہائیوں سے اس پر کام کر رہی تھیں اور اب ان کی کوششیں برسرعام ہو گئی ہیں۔ ان کا تعلق ایک ایسے نظریے سے ہے جس کا ہماری آزادی کی تحریک میں کوئی کردار نہیں تھا، جس کا ہمارے آئین کی تشکیل میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے آئین کو جلایا بھی اور اس کے سخت خلاف بھی تھے۔‘‘ سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کانگریس لیڈر یہاں تک کہتی ہیں کہ ’’یہ وہ نظریہ ہے جس نے بہت پہلے نفرت کا ایسا ماحول پیدا کیا جس نے آخرکار مہاتما گاندھی جی کے قتل کی راہ ہموار کر دی۔ آج اُس کے پیروکار گاندھی جی کے قاتل کی بھی تعریف و توصیف کرتے ہیں۔ یہ وہ نظریہ ہے جس نے ہمیشہ ہمارے بانیانِ قوم کے اصولوں کو رد کیا۔ اس کا مزاج تنگ نظر اور شدید فرقہ پرستانہ ہے۔‘‘

تقریب میں موجود لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے سونیا گاندھی کہتی ہیں کہ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے کہ جواہر لال نہرو جی کو بدنام کرنا آج کی حکمراں طاقت کا اہم ترین ہدف ہے۔ ان کا مقصد صرف نہرو کو مٹانا نہیں بلکہ اس سماجی، سیاسی و معاشی بنیاد کو ختم کرنا ہے جس پر ہمارا ملک قائم ہوا اور آگے بڑھا۔‘‘ تھوڑی فکر مندی ظاہر کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’’آگے کا راستہ آسان نہیں ہے، لیکن ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ ہر ایک کو انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اس خطرناک منصوبے کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ ہمارا فرض بھی ہے اور آنے والی نسلوں کا حق بھی۔‘‘


سونیا گاندھی جواہر لال نہرو کے نظریات کو ناقابل فراموش قرار دیتی ہیں، اور کہتی ہیں کہ ’’نہرو کے نظریات کا مضبوط دفاع کوئی جذباتی عمل نہیں، بلکہ یہ ہندوستان کے آئینی وعدے کو بحال کرنے کا عزم ہے۔ یہ پروپیگنڈے کے مقابلے میں عقل و دلیل کی حفاظت کا وعدہ ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ہے کہ ہماری جمہوریت جدید اور دور اندیش رہے۔ اگر ہم کامیاب ہوئے تو یہ نہ صرف نہرو جی کے ورثے کا احترام ہوگا، بلکہ اس ہندوستان کو محفوظ رکھے گا جس کا خواب انہوں نے دیکھا تھا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ایسے وقت میں جب عوامی زندگی میں رواداری سکڑ رہی ہے اور جب اختلاف کو غداری کہا جا رہا ہے، نہرو جی کے نظریات اور اقدار مزید بیش قیمت ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے سکھایا ہے کہ اختلاف خطرہ نہیں بلکہ جمہوریت کی ضرورت ہے۔ ہمیں بتایا ہے کہ ایک پُراعتماد قوم کو اپنے ماضی کی حقیقت سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

تقریب کے آخر میں سونیا گاندھی نے سابق رکن پارلیمنٹ سندیپ دیکشت اور ان کی ٹیم کو ’دی نہرو سنٹر انڈیا‘ کو وجود عطا کرنے پر مبارکباد پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’سندیپ دکشت کی یہ پیش قدمی، جس نے ہم سب کو آج یہاں جمع کیا ہے، نہرو جی کو جھوٹ اور فریب کے جال سے نکالنے کی ایک مخلصانہ کوشش ہے۔ ہمیں ملک کے طول و عرض میں ایسی بے شمار کوششوں کی ضرورت ہے۔ میں سندیپ اور اُن کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتی ہوں اور ان کی کوششوں کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتی ہوں۔‘‘