روہنگیا سے متعلق چیف جسٹس آف انڈیا کے تبصرہ سے مایوس سابق ججوں اور سینئر وکلاء نے لکھا کھلا خط
خط کے مطابق سماعت کے دوران بنچ نے روہنگیا پناہ گزینوں کو درانداز کہا اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ غار کھود کر ہندوستان میں گھسے ہیں، کیا انھیں کھانا، پانی اور تعلیم کا حق ہے۔

ہندوستان کے کئی سابق ججوں، سینئر وکلاء، دانشوروں اور حقوق انسانی تنظیم ’کیمپین فار جیوڈیشیل اکاؤنٹیبلٹی اینڈ ریفارمس‘ نے ہندوستان کے چیف جسٹس سوریہ کانت کو کھلا خط لکھ کر روہنگیا معاملے پر ان کے تبصرہ کو قابل اعتراض قرار دیا ہے۔ چیف جسٹس کے تبصرہ کو آئین مخالف، غیر اخلاقی اور بے حد غیر ذمہ دارانہ بتانے والوں میں دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اے پی شاہ، مدراس ہائی کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس کے چندرو، پٹنہ ہائی کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس انجنا پرکاش، نیشنل جیوڈیشیل اکیڈمی دہلی کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر موہن گوپال وغیرہ شامل ہیں۔
اس خط میں 2 دسمبر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی ایک بنچ کے ذریعہ روہنگیا پناہ گزیں معاملے میں کیے گئے تبصرہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ سماعت روہنگیا پناہ گزینوں کے مبینہ طور پر حراست سے غائب ہونے کی سے متعلق عرضی پر ہو رہی تھی، جو مشہور مصنفہ اور حقوق انسانی کارکن ڈاکٹر ریتا منچندا نے داخل کی تھی۔ عرضی میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ہندوستان میں کئی روہنگیا پناہ گزینوں کو حراست میں لے کر غائب کر دیا گیا ہے۔
خط کے مطابق سماعت کے دوران بنچ نے روہنگیا پناہ گزینوں کو ’درانداز‘ کہا اور ان سے سوال کیا کہ کیا وہ غار کھود کر ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں، کیا انھیں کھانا، پانی اور تعلیم کا حق ہے۔ ہندوستان کی غریبی کا حوالہ دے کر ان کے حقوق پر سوال بھی اٹھائے گئے۔ اس کھلے خط میں کہا گیا کہ یہ تبصرہ آئینی اقدار کے خلاف ہے اور نسل کشی سے بھاگ رہے لوگوں کو بے عزت کرنے والا ہے۔ اقوام متحدہ نے روہنگیا کو دنیا کا سب سے زیادہ مظلوم اقلیت قرار دیا ہے۔ میانمار میں دہائیوں سے ان کے ساتھ نسلی واقعات اور نسل کشی ہو رہی ہے۔ انٹرنیشنل کورٹ نے بھی اسے نسل کشی مانا ہے۔ اپنی جان بچانے کے مقصد سے لاکھوں روہنگیا بنگلہ دیش، ہندوستان اور دیگر ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
خط لکھنے والوں نے یاد دلایا کہ آرٹیکل-21 ہر شخص کو زندگی اور آزادی کا حق دیتا ہے، چاہے وہ ہندوستانی شہری ہو یا نہیں۔ 1996 کے اپنے ہی فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ اسٹیٹ ہر انسان کی زندگی کی حفاظت کرنے کو مجبور ہے۔ ہندوستان نے تبتیوں، سری لنکائی تملوں اور 1971 میں بنگلہ دیش سے آئے لاکھوں پناہ گزینوں کو احترام کے ساتھ پناہ دی تھی۔ لیکن روہنگیا کے معاملے میں عدالت کی یہ زبان نفرت کو فروغ دیتی ہے اور عدلیہ کے اخلاقی وقار کو نقصان پہنچاتی ہے۔
خط میں چیف جسٹس سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ خود اور پوری عدلیہ بھی آئینی اخلاقیات، انسانی ہمدردی اور ہر انسان کے وقار کی حفاظت کے لیے پھر سے عزم ظاہر کرے۔ عدالت کے الفاظ سرف کورٹ روم میں نہیں، پورے ملک کی روح پر اثر ڈالتے ہیں۔ غریبوں، بے سہاروں اور حاشیہ پر زندگی گزار رہے لوگوں کے لیے سپریم کورٹ آخری امید ہوتی ہے۔ ایسے میں اس طرح کے تبصرے لوگوں کا بھروسہ توڑتی ہیں اور کمزور طبقات کے لیے خطرہ بن جاتی ہیں۔
اس کھلے خط میں دستخط کرنے والوں میں کئی سبکدوش جج، سینئر وکلا اور سماجی کارکنان شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا وقار فیصلوں کی تعداد سے نہیں بلکہ ان میں دکھائی دینے والی انسانیت سے بنتا ہے۔ روہنگیا معاملہ ابھی عدالت میں زیر التوا ہے، لیکن 2 دسمبر کے تبصروں نے پورے ملک میں حقوق انسانی طبقہ کو حیران کر دیا ہے۔