فکر و خیالات

پنجاب میں طلبا تحریک نے مرکزی حکومت کو جھکنے پر کیا مجبور... ہرجندر

تحریک چلانے والے طلبا کا مطالبہ ہے کہ طلبا یونین انتخاب کی تاریخوں کا اعلان کیا جائے اور اس کا عمل فوراً شروع ہو۔ پورا پنجاب اس معاملے میں متحد نظر آ رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر ’ایکس‘&nbsp;<a href="https://x.com/Tractor2twitr_P">@Tractor2twitr_P</a></p></div>

تصویر ’ایکس‘ @Tractor2twitr_P

 

پنجاب میں یونیورسٹی طلبا کی ایک شکایت سے شروع ہوا تنازعہ اب ریاستی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کوشش یہ تھی کہ طلبا کو سیاست سے دور رکھا جائے، لیکن بات آگے بڑھتے بڑھتے یونیورسٹی انتظامیہ کے جمہوری ڈھانچے کو ختم کرنے تک پہنچ گئی۔ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب نئے سیشن میں داخلہ لینے والے طلبا سے ایک حلف نامہ پر دستخط کرانے کو کہا گیا، جس میں مختلف شرائط کے ساتھ طلبا کی سیاسی سرگرمی پر پابندی عائد کرنے کی مضبوط بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ فوراً ہی اس کا احتجاج شروع ہو گیا۔ بات عرضداشت پیش کرنے، احتجاج و پرتشدد مظاہروں سے شروع ہوئی اور اکتوبر کے آخری حصہ میں یہ بھوک ہڑتال تک پہنچ گئی۔

Published: undefined

تحریک میں شامل طلبا سیاسی شمولیت سے متعلق کئی عدالتی فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں۔ ایک دلیل یہ بھی تھی کہ طلبا سے حلف نامہ لینے کا فیصلہ سینیٹ نے نہیں کیا ہے۔ یونیورسٹی کی پالیسی ساز تنظیم سینیٹ جمہوری طریقے سے منتخب ہوتی ہے۔ اس کی مدتِ کار ایک سال پہلے ختم ہو گئی تھی، اور دوبارہ انتخابات نہیں کرائے گئے۔ طلبا تنظیمیں پہلے سے ان انتخابات کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ تحریک میں شامل طلبا یہ بات سمجھ چکے تھے کہ یہ سلسلہ آگے چل کر یونیورسٹی پر ایک خاص نظریہ تھوپنے تک جائے گا۔ تحریک کا ایک نعرہ ’خاکی کچھا پھٹے گا، ایفی ڈیوٹ ہٹے گا‘ خاصا مشہور بھی ہوا۔ یونیورسٹی کے طلبا لیڈر دِویانش ٹھاکر اس سے آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ ’’اگر کیمپس میں جمہوریت نہ رہی تو کیمپس کے باہر بھی وہ زندہ نہیں رہ پائے گی۔‘‘

Published: undefined

جلد ہی سیاسی پارٹیوں کے رہنما بھی تحریک کے مقام پر پہنچنا شروع ہو گئے۔ سب سے بڑا موڑ تب آیا جب پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنّی طلبا کی حمایت کے لیے وہاں پہنچے۔ چنّی خود بھی پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ طلبا کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ پنجاب ڈے کے روز مرکزی حکومت نے خاموشی سے ایک نوٹیفکیشن جاری کر کے یونیورسٹی کی 91 رکنی منتخب سینیٹ کو 32 رکنی نامزد سینیٹ میں تبدیل کر دیا۔ سینیٹ سے بننے والی یونیورسٹی کی پالیسی نافذ کرنے والے سنڈیکیٹ کو بھی مکمل طور پر نامزد ادارے میں بدل دیا گیا۔

Published: undefined

سمجھا جاتا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کی سینیٹ اور سنڈیکیٹ کا یہی نظام تھا جس کی وجہ سے اس معزز یونیورسٹی پر کسی سیاسی پارٹی یا نظریے کا قبضہ نہیں ہو پایا اور اس نے ہمیشہ اپنا آزادانہ تشخص برقرار رکھا۔ یہ سب کچھ خاموشی سے کیا گیا۔ لوگوں کو اس کی خبر تب ہوئی جب ’دی ٹریبیون‘ نے اس بارے میں خبر شائع کی۔ پھر پورے پنجاب میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ ہر جگہ احتجاج شروع ہو گئے۔ یونیورسٹی میں احتجاج کر رہے طلبا کو اب ایک بڑا ایشو ہاتھ لگ گیا تھا۔ اس سے تحریک کو نئی جان مل گئی۔

Published: undefined

پنجاب یونیورسٹی پورے پنجاب کے لیے صرف ایک یونیورسٹی ہی نہیں، بلکہ ایک بڑا جذباتی عنصر بھی ہے۔ یہ ملک کی قدیم ترین یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ 1857 میں جب ملک میں سب سے پہلے مدراس، کلکتہ اور بمبئی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی، اس کے بعد 1882 میں پنجاب یونیورسٹی کی بنیاد لاہور میں رکھی گئی۔ اس زمانے میں دہلی کے سینٹ اسٹیفن کالج اور ہندو کالج بھی اسی پنجاب یونیورسٹی سے منسلک تھے۔ بعد میں دہلی یونیورسٹی بنی تو وہ اس سے جڑ گئے۔

Published: undefined

یہ ملک کی واحد یونیورسٹی ہے جس نے تقسیم ہند کا صدمہ بھی برداشت کیا۔ ملک تقسیم ہوا تو پنجاب یونیورسٹی بھی تقسیم ہو گئی۔ ابتدا میں اسے ملک کے مختلف مقامات پر منتقل کیا گیا۔ جب چنڈی گڑھ کو پنجاب کی راجدھانی بنایا گیا تو وہاں 550 ایکڑ زمین پر اس کا مستقل ٹھکانہ بن گیا۔ لسانی بنیادوں پر 1966 میں جب پنجاب کی تقسیم ہوئی اور ہریانہ و ہماچل پردیش بنے، تب پورے علاقے کے بیشتر کالج پنجاب یونیورسٹی سے ہی منسلک تھے۔ آہستہ آہستہ جب ان ریاستوں میں یونیورسٹیاں بنیں تو وہاں کے کالج انہی سے جڑ گئے۔ صرف پنجاب کے کالج پنجاب یونیورسٹی سے منسلک رہ گئے، اس لیے سبھی نے طے کر لیا کہ پنجاب یونیورسٹی صرف پنجاب کی ہے۔ پنجاب کے لیے یہ یونیورسٹی ایسا نشان بن گئی جو اسے ہریانہ اور ہماچل سے مختلف کرتی ہے۔ ویسے بھی یہ ریاستیں اس کے اخراجات میں کوئی حصہ نہیں دیتیں۔ یونیورسٹی کا 60 فیصد خرچ مرکزی حکومت اٹھاتی ہے، جبکہ 40 فیصد پنجاب حکومت کے ذمے ہوتا ہے۔

Published: undefined

سینیٹ اور سنڈیکیٹ میں تبدیلی نے کئی پرانے زخم ہرے کر دیے۔ کہا جانے لگا کہ پنجاب کو چنڈی گڑھ تو نہ ملا، اب اس سے پنجاب یونیورسٹی بھی چھینی جا رہی ہے۔ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس کونسل کے نائب صدر اشمیت مان اپنے ہر خطاب میں کہتے نظر آئے کہ ’’یہ یونیورسٹی پنجاب کے 28 گاؤں کو اُجاڑ کر بنی تھی۔ اس زمین پر حق ظاہر کرنے سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا… مرکزی حکومت ہماری یونیورسٹی، ہمارا پانی، ہمارے کھیت سب چھین لینا چاہتی ہے اور ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔‘‘

Published: undefined

جلد ہی اس ریاست کی سیاست ہی نہیں، سول سوسائٹی کی تنظیمیں بھی پنجاب یونیورسٹی کی سمت بڑھنے لگیں۔ حالات ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر یونیورسٹی انتظامیہ نے حلف نامہ سے متعلق اپنے فیصلہ کو واپس لے لیا۔ اس سے بھوک ہڑتال تو ختم ہوئی، لیکن تب تک تحریک بہت بڑی ہو چکی تھی۔ ’پنجاب یونیورسٹی بچاؤ مورچہ‘ بن گیا اور تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈران دھرنا والی جگہ کا رخ کرنے لگے۔ گرمی بڑھی تو اس کی آنچ دہلی تک محسوس ہونے لگی۔ یہ دلیل بھی سامنے آئی کہ سینیٹ اور سنڈیکیٹ کا نظام پنجاب یونیورسٹی ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا ہے، جو پنجاب اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ اسمبلی میں بنے قانون کی دفعات کو مرکزی حکومت آخر کیسے ختم کر سکتی ہے؟ قانون کے ماہرین کہہ رہے تھے کہ یہ تبدیلی عدالت میں نہیں ٹھہر سکے گی۔

Published: undefined

5 نومبر کو مرکزی حکومت نے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ 28 اکتوبر کے نوٹیفکیشن پر عمل درآمد اگلے حکم تک روک دیا جائے گا۔ لیکن اس سے تحریک کہاں رکنے والی تھی، بلکہ مزید بھڑک اٹھی۔ مجبوراً مرکزی حکومت نے 2 دن بعد تیسرا نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں 28 اکتوبر کے نوٹیفکیشن کو منسوخ کر دیا گیا۔ تحریک پھر بھی نہ رکی۔ بس طلبا کا مطالبہ بدل گیا۔ اب مطالبہ یہ ہے کہ انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا جائے اور اس پر عمل درآمد شروع ہو۔ پورا پنجاب اس مطالبے پر متحد ہو چکا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جہاں تحریک جاری ہے، وہ جگہ زیارت گاہ بن چکی ہے۔ سیاست داں تو وہاں آ ہی رہے ہیں، ثقافتی کارکن، پنجابی گلوکار اور فنکار بھی بڑی تعداد میں پہنچ رہے ہیں۔ مشہور پنجابی گلوکار ستندر سرتاج، گلاب سدّھو اور ببو مان وہاں گئے تو ان کا بڑا تذکرہ ہوا۔

Published: undefined

ماحول ویسا بنتا جا رہا ہے جیسا 2020 میں دہلی کی سرحدوں پر ہونے والی ’کسان تحریک‘ کے دوران تھا۔ گیت، موسیقی، اسٹریٹ پرفارمنس، مشاعرے، انقلابی تقاریر، شہیدوں کو خراجِ عقیدت... یہ سب مسلسل جاری ہے۔ لنگر لگ رہے ہیں۔ کہیں سے دودھ آ رہا ہے، کہیں سے کھیر۔ طلبا میں خشک میوے بانٹنے کی ایک ویڈیو انسٹاگرام اور ایکس پر خوب شیئر ہو رہی ہے۔ یونیورسٹی کی تحریک سے بڑھ کر اب یہ مسئلہ پنجاب کی شناخت کا سوال بن چکا ہے۔ چنڈی گڑھ پنجاب کو دیے جانے کا مطالبہ پھر زور شور سے اٹھنے لگا ہے۔ تحریک کے شرکاء میں یہ نعرہ بھی بہت سنائی دے رہا ہے کہ ’مِٹّھی دھن رباب دی، پنجاب یونیورسٹی پنجاب دی، سوہا پھُل گلاب دا، چنڈی گڑھ پنجاب دا۔‘

Published: undefined

10 نومبر کو جب پنجاب میں بند کو عملی جامہ پہنایا گیا تو وہاں بھاری بھیڑ جمع ہو گئی۔ نہنگ سنگھ گھوڑوں پر سوار ہو کر اور کسان ٹریکٹروں پر آ کر بڑی تعداد میں پہنچنے لگے۔ کسان لیڈر تیجویر سنگھ نے کہا کہ ’’یہاں کسانوں کے بچے بھی پڑھتے ہیں، ہم اس یونیورسٹی میں تبدیلی کیسے ہونے دے سکتے ہیں؟‘‘

Published: undefined

بھاری ہجوم کی اطلاع ملتے ہی یونیورسٹی کو سیل کر دیا گیا۔ تبھی ایک اور واقعہ ہوا۔ بی اے سال دوم کی طالبہ ہرمن پریت کور جب بیریکیڈ پار کر کے اندر جانا چاہتی تھی تو ایک خاتون پولیس اہلکار نے روکنے کے لیے اس کا بازو پکڑ لیا۔ احتج کرتے ہوئے ہرمن پریت نے سخت لہجے میں کہا کہ ’’بازو چھوڑ، نئیں تے حساب لا لئیں اپنا۔‘‘ اس واقعہ کی ویڈیو وائرل ہو گئی۔

Published: undefined

معروف پنجابی گلوکار دلجیت دوسانجھ اپنے ایشیا ٹور کے سلسلے میں آسٹریلیا میں تھے۔ انہوں نے اسٹیج سے نہ صرف تحریک کی حمایت کی بلکہ ہرمن پریت کے حوصلے کی تعریف بھی کی۔ پنجابی کے ایک دیگر گلوکار مرجانہ مان نے ہرمن پریت پر ایک گانا بنا دیا، جو آج کل یوٹیوب پر کافی وائرل ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کی تحریک کو اس کی ’پوسٹر گرل‘ مل چکی تھی۔ اسی دوران یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے دفتر کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ وائس چانسلر نے نائب صدر جمہوریہ (جو پنجاب یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں) سے سینیٹ انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔ تحریک میں شامل طلبا کا کہنا ہے کہ جب تک تاریخوں کا اعلان نہیں ہوتا، تحریک جاری رہے گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined