تصویر / اے آئی
سال 2024 میں مرکزی وزارتِ زراعت نے زرعی شعبے میں 'اصلاحات' کی مسلسل کوششیں کیں۔ مارچ میں اس نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی تیسری مدتِ کار کے پہلے 100 دنوں میں نیشنل کونسل فار ایگریکلچر اینڈ رورل ٹرانسفارمیشن (این سی اے آر ٹی) کے قیام کا خیال پیش کیا۔ این سی اے آر ٹی کی تجویز زرعی شعبے کے لیے پالیسی اور پروگرام تیار کرنے والے ایک وفاقی ادارے کے طور پر کی گئی تھی۔ اکتوبر میں وزارت نے مختلف زرعی امور جیسے فصل کا انتخاب، بوائی، آبپاشی، کاشت، کاشت کے بعد کی دیکھ بھال، کھاد، انٹرنیٹ آف تھنگز ٹیکنالوجی اور ذخیرہ اندوزی کو معیاری بنانے کے لیے نیشنل ایگریکلچر کوڈ (این اے سی) کا خیال پیش کیا۔
نومبر میں وزارت نے زرعی مارکیٹنگ سے متعلق قومی پالیسی کا مسودہ جاری کیا اور کسانوں سے دو ہفتوں میں اس پر رائے طلب کی۔ یہ سب کسانوں یا ریاستوں سے مشورہ کیے بغیر لایا گیا تھا، جبکہ آئین میں زراعت اور زرعی مارکیٹنگ ریاستی فہرست کے موضوعات ہیں۔ یہ کوششیں وزارت کے 'سب کے لیے ایک حل' کے تصور اور زرعی شعبے کو کارپوریٹ بنانے کے عزم سے نکل کر سامنے آئی ہیں۔ وزارت زرعی شعبے کے کارپوریٹ بنانے کو ہندوستان کے زرعی مسائل کے تمام حل کے طور پر پیش کرتی ہے۔
Published: undefined
ایسا لگتا ہے کہ وزارت نے 2021 میں تین متنازعہ زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے بعد تشکیل دی گئی ماہرین کی اعلیٰ سطحی کمیٹی کی رپورٹ کو بھی دبایا ہے۔ اگر رپورٹ پیش کی بھی گئی، تو شاید حکومت کو یہ پسند نہ آئی ہو۔ ستمبر میں سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ آئی پی ایس افسر بی ایس سندھو، موہالی کے رہائشی دیویندر شرما، ماہرِ معیشت رنجیت سنگھ گھومن اور پنجاب زرعی یونیورسٹی کے زرعی معیشت کے ماہر سکھ پال سنگھ جیسے آزاد ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی۔ جنوری 2025 میں اس کی پہلی رپورٹ آنے کی توقع ہے۔
ایسے حالات میں وزارت نے مارکیٹنگ کے حوالے سے پالیسی کا مسودہ اتنی اجلت میں کیوں جاری کیا؟ کسانوں اور مختلف زرعی ماہرین کا ماننا ہے کہ کسانوں کے جاری احتجاج سے خوفزدہ ہوئے بغیر حکومت زرعی شعبے پر کارپوریٹ کا قبضہ قائم کرنے کی بنیاد تیار کرنے میں مصروف ہے۔ آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) کے پی کرشن پرساد کہتے ہیں، ’’نئے ڈھانچے والا یہ مسودہ تین متنازعہ زرعی قوانین کو عقبی دروازے سے دوبارہ نافذ کرنے کی سہولت فراہم کرتا ہے، جنہیں کھیتی، خوراکی صنعت اور عوامی نظام ترسیل (پی ڈی ایس) کے کارپوریٹ کے حوالہ کرنے کی فکر کی وجہ سے منسوخ کیا گیا تھا۔‘‘ ان کا کہنا تھا، "یہ اصلاحات زرعی، زمین، صنعت اور منڈیوں پر ریاستی حکومتوں کے اختیارات کی خلاف ورزی کرنا چاہتی ہیں، حالانکہ یہ شعبے آئین کی ریاستی فہرست میں شامل ہیں۔‘‘ زرعی مارکیٹنگ کے مسودے کی فوری نوعیت پر سوال اٹھاتے ہوئے پروفیسر گھومن پوچھتے ہیں، ’’آخر اتنی جلدی کیا تھی؟ کسانوں کی تشویشات درست ہیں کیونکہ مسودہ معاہدہ کھیتی، نجی منڈیوں اور 'ایک ملک، ایک بازار' کی بات کرتا ہے۔ جبکہ کسان گزشتہ 10 مہینوں سے تمام فصلوں کے لیے ایم ایس پی کو قانونی حیثیت دینے کی مانگ کر رہے ہیں، اس مسودے میں ایم ایس پی کا ذکر تک نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
Published: undefined
بین الاقوامی زرعی تجارت اور مارکیٹنگ کو بھی نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ وزارتِ تجارت کی طرف سے عائد برآمدی محصولات، پابندیاں اور کم از کم برآمدی قیمت کی پالیسیاں اور برآمدات پر دیگر اسی طرح کی پابندیاں اکثر ہندوستانی کسانوں کے لیے بڑے نقصانات کا سبب بنتی ہیں، خاص طور پر جب دنیا بھر میں قیمتیں زیادہ ہوں۔
شبہ اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت جس طرح 'اصلاحات' کے طور پر تبدیلیوں کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، وہ بہت چالبازی سے بھرپور ہے۔ کیا مرکزی حکومت کو اس معاملے پر پہلے ریاستوں اور کسانوں سے بات نہیں کرنی چاہیے تھی؟ وزارت کو یہ بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ یکساں 'سب کے لیے ایک پالیسی' ہمارے جیسے بڑے ملک میں کیسے کام کر سکتی ہے، جہاں مٹی اور فصلوں کے نمونوں میں تنوع ہے، آب و ہوا، کھانے پینے کی عادات اور غربت کی سطح بہت مختلف ہیں۔ کیا ان تبدیلیوں کو پہلے زرعی لحاظ سے پسماندہ ریاستوں یا چھوٹی ریاستوں میں نافذ کرنا بہتر نہیں ہوتا؟
زرعی وزارت کی مسودہ پالیسی اس بات پر زور دیتی ہے کہ اس کا بنیادی مقصد 'ملک میں ایسا مارکیٹنگ ماحولیاتی نظام تیار کرنا ہے جس میں تمام طبقوں کے کسانوں کو اپنی پیداوار کے لیے بہترین قیمت حاصل کرنے کے لیے ان کی پسند کا بازار ملے۔' تضاد یہ ہے کہ یہ مسودہ ہندوستانی زراعت کی مضبوط صحت کی بات کرتے ہوئے شروع ہوتا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 2016-17 اور 2022-23 کے دوران زرعی شعبے میں مسلسل 5 فیصد سالانہ ترقی دیکھی گئی، جیسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ غذائی اجناس اور تیل بیج کی پیداوار بالترتیب 328.9 میٹرک ٹن اور 39.6 میٹرک ٹن کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے۔ مسودے کا دعویٰ ہے کہ ہارٹیکچر نے متاثر کن ترقی درج کرتے ہوئے 352.23 میٹرک ٹن کی پیداوار حاصل کی ہے اور زرعی برآمدات 50.2 ارب امریکی ڈالر کی اپنی ریکارڈ بلند سطح پر ہیں۔ پھر تو سب کچھ ٹھیک ہوگا، ہے نا؟ بالکل نہیں۔
Published: undefined
مسودے میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں بہت بڑی تعداد میں چھوٹے اور محنت کش کسان ہیں۔ چھوٹی ہوتی کاشت، پیداوار کی زیادہ لاگت، اچھے بازاروں تک رسائی نہ ہونا اور 'مانگ کی بنیاد پر پیداوار کی کمی' کسانوں کو اپنی پیداوار کے لیے زیادہ سے زیادہ قیمت حاصل کرنے سے روکتی ہے۔
چھوٹے اور محنت کش کسانوں کے لیے یہ مسودہ زرعی مارکیٹنگ سے متعلق 12 اصلاحات کی تجویز پیش کرتا ہے جن میں نجی تھوک بازاروں کی اجازت دینا، خوراک کے پروسیسرز، برآمد کنندگان، منظم خوردہ فروشوں اور تھوک خریداروں کی طرف سے براہ راست تھوک خریداری شامل ہے۔ پالیسی دستاویز گوداموں، سائیلو اور کولڈ اسٹوریج کو ڈیمڈ مارکیٹ قرار دیتی ہے اور ای-ٹریڈنگ پلیٹ فارمز، ایک ہی جگہ پر مارکیٹ فیس وصول کرنے، واحد یکجا لائسنس، مارکیٹ فیس اور کمیشن فیس کو معقول بنانے کی بات کرتی ہے۔
مسودے کے باب 7 میں لکھا ہے، ’’نجی بازاروں کو اپنے درمیان اور اے پی ایم سی (زرعی پیداوار مارکیٹ کمیٹی) بازاروں سمیت دیگر مارکیٹنگ چینلز کے ساتھ مقابلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ نجی بازاروں کے قیام سے کسانوں اور بازار کے درمیان تعلق بہتر ہوتا ہے اور اس طرح نجی بازار کسانوں کی آمدنی بڑھانے میں مددگار ہوں گے۔ حالانکہ بیشتر ریاستوں نے نجی تھوک منڈیوں کے قیام کے لیے ضروری اہتمام کیے ہیں، پھر بھی مہاراشٹر، گجرات، راجستھان، کرناٹک اور اتر پردیش جیسی چند ریاستوں میں ہی نجی منڈیاں قائم ہو پائی ہیں۔‘‘
Published: undefined
مسودہ پالیسی میں کئی ایسے نکات موجود ہیں جو ان تین متنازعہ زرعی قوانین سے مماثلت رکھتے ہیں، جن کی وجہ سے کسانوں نے ایک سال تک احتجاج کیا اور حکومت کو ان قوانین کو منسوخ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ان نکات میں شامل ہیں:
• کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی): کسان تمام فصلوں کے لیے ایم ایس پی کی قانونی ضمانت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حکومت نے اس مطالبے کو نظرانداز کیا ہے۔ 2 جنوری سے تا دم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے سردار جگجیت سنگھ ڈلےوال اور سرون سنگھ پنڈھیر کی قیادت میں کسان مزدور مورچہ کے بینر تلے کسان 13 فروری 2024 سے شمبھو اور کھنوری سرحدوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ حالانکہ زرعی امور پر پارلیمنٹ کی مستقل کمیٹی نے 17 دسمبر کو اپنی رپورٹ میں ایم ایس پی کی سفارش کی تھی لیکن مسودہ پالیسی میں ایم ایس پی کا ذکر تک نہیں کیا گیا ہے۔
• نجی سرمایہ کاری: نجی شعبے کی بڑھتی ہوئی شراکت سے اجارہ داری کے خطرات بڑھ جاتے ہیں جس سے کسانوں کی سودے بازی کی صلاحیت کم ہو سکتی ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کے لیے قائم منڈی کا نظام بہت اہم ہے لیکن قومی ڈھانچے کے نفاذ سے یہ ختم ہو سکتا ہے۔ نجی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر مسودے میں زور دیا گیا ہے جو کہ اس وقت کے دوسرے زرعی قانون 'فارمرز (ایمپاورمنٹ اینڈ پروٹیکشن) ایگریمنٹ آن پرائس ایشورنس اینڈ فارم سروسز ایکٹ' سے ملتا جلتا ہے۔
• معاہدہ کھیتی: یہ 'فارمرز (ایمپاورمنٹ اینڈ پروٹیکشن) ایگریمنٹ آن پرائس ایشورنس اینڈ فارم سروسز ایکٹ' معاہدہ کا حصہ تھا جو معاہدہ کھیتی (کنٹریکٹ فارمنگ) اور نجی کاری کو فروغ دینے والا تھا۔ مسودہ پالیسی میں اس کا دوبارہ ذکر کیا گیا ہے۔
Published: undefined
• نجی منڈیاں: مسودہ پالیسی اے پی ایم سی بازاروں یا 'منڈیوں' کو عوامی نجی شراکت داری (پی پی پی) کے تحت مخصوص بنیادی ڈھانچے اور خدمات سے لیس کرنے کی بات کرتی ہے۔ یہ گوداموں اور کولڈ اسٹوریج کی سہولتوں جیسے مارکیٹ کے بنیادی ڈھانچے میں نجی سرمایہ کاری کو فروغ دیتی ہے اور ڈیجیٹل ٹریڈنگ اور ای مارکیٹ پلیٹ فارمز کو اپنانے کی ترغیب دیتی ہے۔ کسانوں کا ماننا ہے کہ یہ اس لیے بنایا گیا ہے تاکہ نجی کارپوریٹ ادارے منڈیوں پر قبضہ کر سکیں۔ مسودہ پالیسی میں نجی تھوک بازاروں کے قیام کی اجازت دینے اور پروسیسرز، برآمد کنندگان، منظم خوردہ فروشوں اور تھوک خریداروں کو براہ راست تھوک خریداری کی اجازت دینے کا بھی ذکر ہے۔ یہ گوداموں، سائلو اور کولڈ اسٹوریج کو ڈیمڈ مارکیٹ قرار دیتا ہے اور ای ٹریڈنگ پلیٹ فارمز، مارکیٹ فیس کا واحد پوائنٹ وصولی، واحد لائسنس، مارکیٹ فیس اور کمیشن فیس کو معقول بنانے کی بات کرتا ہے۔
• ایک ملک ایک بازار: مسودہ موجودہ زرعی مارکیٹنگ کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں لاتے ہوئے اسے ایک یکجا قومی بازار (یو این ایم) میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کرتا ہے جو ایک ویلیو چین سینٹرک انفراسٹرکچر (وی سی سی آئی) سے جڑا ہوگا۔ فارمرز پروڈیوس ٹریڈ اینڈ کامرس (پروموشن اینڈ فیسلیٹیشن) ایکٹ 2021 نے بھی کسانوں کو اے پی ایم سی منڈیوں کے باہر اپنی پیداوار بیچنے کی اجازت دی تھی۔ مودی حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ قانون کسانوں کو ایک کھلا بازار فراہم کرے گا اور وہ ملک کے کسی بھی حصے میں مختلف پلیٹ فارمز پر براہ راست صارفین کو اپنی پیداوار بیچ سکیں گے۔
Published: undefined
• ٹیکنالوجی اور کاروباری حکمت عملی پر زور: مسودے میں انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی)، بلاک چین ٹیکنالوجی، یکجا آؤٹ پٹ مینجمنٹ سسٹم اور ڈیجیٹلائزیشن پر زور دیا گیا ہے، جو منسوخ کیے گئے قوانین کی خصوصیت تھی۔
سنیوکت کسان مورچہ کے رہنما بلبیر سنگھ راجےوال نے کہا، ’’مودی حکومت کا پیغام واضح ہے، وہ پنجاب میں اے پی ایم سی منڈیوں کو توڑنا چاہتے ہیں اور زراعت میں کارپوریٹ اجارہ داری لانا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم مودی پنجاب سے بدلہ لینے پر مصر ہیں کیونکہ ہم نے دہلی میں کسانوں کے احتجاج کی قیادت کی تھی۔ چونکہ زراعت ریاست کا موضوع ہے، اس لیے ہم نے پنجاب کے وزیر زراعت گورمیت سنگھ کھڈیان سے درخواست کی ہے کہ وہ پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد لائیں اور نئی مسودہ پالیسی کا مقابلہ کریں۔‘‘
راجےوال نے دعویٰ کیا کہ نئی مسودہ زرعی پالیسی پنجاب کے اپنے وسائل اور زرعی معیشت پر سے کنٹرول اسی طرح ختم کر دے گی جیسے جی ایس ٹی نے ریاستوں کی مالی خودمختاری کی ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined