فکر و خیالات

سوشلسٹ اور سیکولر لفظ نہیں، جمہوری عہد ہیں...سنجے ہیگڑے

آر ایس ایس کی جانب سے دستور کی تمہید سے ’سوشلسٹ‘ اور ’سیکولر‘ الفاظ ہٹانے کی تجویز کوئی نئی بات نہیں۔ یہ ایک پرانے نظریے کی نئی کوشش ہے، جو ہندوستان کو ایک جامع جمہوریت نہیں مانتا

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر / اے آئی</p></div>

علامتی تصویر / اے آئی

 

جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے، تب تک ممکن ہے کہ سنگھ پریوار کا کوئی اور نمائندہ بھی یہ تجویز دے چکا ہو کہ ہندوستانی دستور کی تمہید سے ’سوشلسٹ‘ اور ’سیکولر‘ الفاظ کو ہٹا دینا چاہیے۔ آر ایس ایس کے سرکاریہ واہ دتاتریہ ہوسبولے نے ایمرجنسی کی 50ویں برسی پر یہی مطالبہ دہرایا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ یہ دونوں الفاظ 1976 میں ایمرجنسی کے دوران جوڑے گئے تھے اور یہ دستور کے اصل متن کا حصہ نہیں تھے۔ مگر ہمیں اس مطالبے کے پیچھے کی گہرائی کو سمجھنا ہوگا کہ یہ صرف الفاظ نہیں، اقدار ہیں، جنہیں اب بے معنی قرار دینے کی کوشش ہو رہی ہے۔

یہ کسی آئینی اصلاح کا معاملہ نہیں۔ نہ ہی یہ کوئی علمی بحث ہے۔ یہ دراصل ایک سیاسی منصوبہ ہے، جو ہندوستان کو ایک نیا چہرہ دینا چاہتا ہے، ایسا ہندوستان جہاں ’سیکولر‘ اور ’سوشلسٹ‘ کی کوئی جگہ نہ ہو۔ یہ ڈاکٹر امبیڈکر کے اس جامع جمہوری خواب کی نفی ہے، جسے دستور کے ذریعے ہم نے قبول کیا تھا۔ اس کے برعکس ایک ایسا ماڈل لانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو محدود، اکثریتی سوچ اور بازار کے اصولوں پر مبنی ہو۔

Published: undefined

دو نظریے، دو ہندوستان

دستور میں جس ہندوستان کا خواب دیکھا گیا، وہ تنوع، شمولیت اور جمہوریت پر قائم ہے۔ یہ مذہب سے دوری کی وجہ سے نہیں بلکہ تمام مذاہب کے مساوی احترام کی وجہ سے سیکولر ہے۔ یہ سوشلسٹ اس لیے ہے کہ یہ سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف کو سب کے لیے ممکن بناتا ہے، نہ کہ کاروبار کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے۔

اس کے برعکس آر ایس ایس کا ماڈل ایک ہندو قوم کے نظریے پر مبنی ہے، جس میں مذہب ایک ذاتی عقیدہ نہیں بلکہ سیاسی ہتھیار بن جاتا ہے۔ اس ماڈل میں بازار صرف دولت ہی نہیں بلکہ اقدار بھی طے کرتا ہے۔ ایسے سماج میں اقلیتوں کو اپنی ’جگہ‘ معلوم ہونی چاہیے اور غریبوں کو اپنی ’حدود‘۔

Published: undefined

یہ تصور کوئی نیا نہیں۔ یہ ان ہی لوگوں کا خواب ہے جنہوں نے نے 1950 میں ہندوستانی دستور کو مسترد کیا تھا، جنہوں نے 1947 میں قومی پرچم کو سلامی دینے سے انکار کیا تھا اور جو ذات، برادری اور شہری برابری کا مذاق اڑاتے رہے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ 42ویں ترمیم کے ذریعے ’سوشلسٹ‘ اور ’سیکولر‘ الفاظ بعد میں جوڑے گئے لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ یہ خیالات دستور میں پہلے سے شامل نہیں تھے۔ آرٹیکل 14 برابری کی ضمانت دیتا ہے۔ آرٹیکل 15 مذہب، نسل، ذات، جنس یا جائے پیدائش کی بنیاد پر امتیاز کی ممانعت کرتا ہے۔ آرٹیکل 25 مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ آرٹیکل 27 اور 28 مذہب کو تعلیم اور ٹیکس نظام سے الگ رکھتے ہیں۔ آرٹیکل 29 اور 30 اقلیتوں کے تعلیمی اور ثقافتی حقوق کی حفاظت کرتے ہیں۔

Published: undefined

یہ دفعات اتفاقیہ نہیں بلکہ دستور کی بنیاد ہیں۔ 1973 میں کیسوانند بھارتی مقدمے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ سیکولرازم دستور کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔ 1994 میں ایس آر بومئی کیس میں عدالت نے واضح کیا کہ ہندوستانی ریاست کسی ایک مذہب کو فوقیت نہیں دے سکتی۔ ان دونوں فیصلوں کے درمیان 42ویں ترمیم ہوئی مگر عدالتی موقف یکساں رہا۔ چنانچہ ان اقدار کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح سوشلسٹ نظریہ بھی کسی بیرونی تقلید کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک فلاحی ریاست کی بنیاد ہے۔ آرٹیکل 39 اور آرٹیکل 43 جیسے رہنما اصول یہی بتاتے ہیں کہ دستور ایک ایسے ماڈل کو ترجیح دیتا ہے جس میں دولت کی تقسیم مساوی ہو اور محنت کش کو زندگی گزارنے کے قابل اجرت ملے۔ ہندوستانی ماڈل کبھی بھی مکمل آزاد منڈی کے حق میں نہیں رہا۔ اگرچہ پچھلے ایک عشرے میں غیر معمولی عدم مساوات دیکھنے میں آئی ہے۔ یہ عدم مساوات اتنی شدید ہے کہ خود نوآبادیاتی دور میں بھی ایسی صورتحال نظر نہیں آئی تھی۔

Published: undefined

یہ حملہ ابھی کیوں؟

تمہید سے ان الفاظ کو ہٹانے کا مطالبہ اچانک نہیں ہوا، بلکہ ایک طویل نظریاتی منصوبے کی پیداوار ہے۔ کچھ طاقتیں ابتدا سے ہی ہندوستان کے جدید نظریے سے نالاں رہی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دستور کے مقابلے منو اسمرتی کو فوقیت دیتے ہیں، جو مساوات پر نہیں بلکہ مراتب پر یقین رکھتے ہیں، جو آج کے سیاسی مفاد کے لیے قدیم ’تہذیبی اقدار‘ کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ لوگ کبھی قبول نہ کر سکے کہ ایک دلت، ایک مسلمان، ایک آدیواسی، ایک عورت یا ایک کسان کو جمہوری ہندوستان میں وہی مقام حاصل ہو جو کسی اور کو ہو لیکن اب، اکثریتی انتخابی طاقت اور سیاسی موافق فضا سے خوش ہو کر وہ اس پرانی سوچ کو قانون کا روپ دینا چاہتے ہیں۔

مگر وہ ایک اہم حقیقت بھول جاتے ہیں کہ دستور صرف پارلیمنٹ کا نہیں، عوام کا ہے۔ ہندوستانی عوام نے ہندو راشٹر کا انتخاب نہیں کیا۔ انہوں نے بھائی چارے، مساوات اور کمزوروں کی حفاظت کرنے والی جمہوری ریاست کو چنا ہے۔

Published: undefined

چوکسی اور امید

جو لوگ تمہید پر حملہ کر رہے ہیں، انہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ محض سجاوٹی الفاظ نہیں بلکہ ایک عہد ہیں۔ ان الفاظ کو مٹانا دستور کی روح کو مجروح کرنا ہے۔ وقتی اکثریت کی بنیاد پر آپ جو پسند ہے وہ رکھیں اور جو نا پسند ہے اسے نکال دیں، ایسا نہ کریں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ جمہوریت کے محافظ ایک واضح لکیر کھینچیں۔ ہمیں صاف کہنا ہوگا کہ یہ دستور ہمارا ہے۔ ہماری وراثت، ہمارا ہتھیار، ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم ان لوگوں کو پھیربدل کی اجازت نہیں دیں گے جنہوں نے اس کا مسودہ کبھی قبول نہیں کیا۔ ہم ان کے آگے نہیں جھکیں گے جو اس کی اقدار کے لیے کبھی کھڑے نہیں ہوئے۔

ہندوستان کی سب سے بڑی طاقت اس کی تنوع ہے اور اس کا سب سے خوبصورت اظہار اس کی تمہید ہے، ’’ہم، بھارت کے لوگ... تمام شہریوں کو انصاف، آزادی، مساوات اور بھائی چارہ فراہم کرنے کے لیے...” ان الفاظ کو قائم رہنے دیں۔ ان اقدار کو زندہ رہنے دیں۔ اس جمہوریہ کو قائم رہنے دیں۔

(مضمون نگار سنجے ہیگڑے سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر وکیل ہیں)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined